بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے بلوچ لبریشن آرمی کے خصوصی دستے مجید بریگیڈ کو غیر ملکی دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا حالیہ فیصلہ ایک بین الاقوامی طاقت کی جانب سے زمینی حقیقتوں سے روگردانی اور نوآبادیاتی بیانیے کی خاموش توثیق ہے۔ ہم اس فیصلے کو نہ حیرت سے دیکھتے ہیں نہ کوئی نیا دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی وہ مزاحمتی قوت ہے جو صرف قابض ریاست کے عسکری تسلط کے خلاف سرگرم ہے اور صرف اپنے مقبوضہ وطن کی آزادی کے لیے میدان میں ہے۔
ترجمان نے کہاکہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ بلوچستان پر پاکستان نے 1948 میں مسلح قبضہ کیا تھا، اور بی ایل اے اسی دن سے پیدا ہونے والی مزاحمت کا تسلسل ہے۔ ہم کسی عارضی سیاسی ردعمل یا محدود گروہی ابھار کا نام نہیں، بلکہ ایک تاریخی، قومی اور دفاعی حقیقت ہیں۔ بی ایل اے اُس بلوچ قومی غیرت کا مسلح اظہار ہے جو کسی بیرونی تصدیق یا عالمی سند کا محتاج نہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم اپنی جدوجہد کو بین الاقوامی انسانی قانون کے اصولوں کے تحت دیکھتے ہیں۔ بی ایل اے ایک منظم عسکری قوت ہے، جو “غیر بین الاقوامی مسلح تنازعہ” کے تمام معیارات پر پورا اترتی ہے، جیسا کہ جنیوا کنونشنز کے مشترکہ آرٹیکل تین میں درج ہے۔ اس دائرہ میں، جنگ کے اصول، جنگجوؤں کے حقوق، اور شہریوں کی حفاظت کے ضوابط متعین کیے گئے ہیں۔ ہم نے خود کو ہمیشہ ان اصولوں کا پابند رکھا ہے۔ دنیا بھر میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں غیر ریاستی مزاحمتی تحریکوں کو ان قوانین کے تحت اخلاقی، قانونی اور سیاسی درجہ دیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ ہماری تمام تر کارروائیاں بلوچستان کے اندر، پاکستان کی فوج، فرنٹیئر کور، انٹیلیجنس نیٹ ورکس، ڈیتھ اسکواڈز اور ان کے معاون گروہوں کے خلاف ہیں۔ ہماری جنگ، زمین کی جنگ ہے؛ وہ زمین جو ہمارے بزرگوں کی ملکیت تھی، اور جسے بندوق کی طاقت سے ہم سے چھینا گیا۔ ہم نہ پاکستانی عوام کے خلاف ہیں، نہ کسی عالمی طاقت کے۔ ہماری بندوق صرف اس قوت کے خلاف اٹھتی ہے جو ہماری سرزمین پر قابض ہے، اور قابض چاہے جو بھی ہو ہماری بندوق اسی طرح اٹھے گی۔
امریکہ کی جانب سے جو الزامات سامنے لائے گئے، ان میں وہی بیانیہ دوہرایا گیا جو قابض ریاست پاکستان برسوں سے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں شہری آبادی کو نشانہ بنانا ہمارے منشور کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ ہم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ہم اپنی جنگ کی نوعیت پر کسی سے وضاحت دینے کے پابند نہیں، اور نہ ہی ہم کسی ایسے بیانیے کے مطابق خود کو ڈھالیں گے جو ریاستی مفادات کے تابع ہو۔
انہوں نے کہاکہ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ جیسے طاقتور ملک کی پالیسیوں میں سکیورٹی، معاہدات اور جغرافیائی مفادات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں اس کی حساسیت کا ادراک ہے، لیکن ہمیں یہ بھی علم ہے کہ بعض اوقات ایسی فہرستیں زمینی عدل سے زیادہ سیاسی توازن کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ہم ان فہرستوں کو نہ قانونی معیار مانتے ہیں، نہ اخلاقی۔ بلوچ مزاحمت، جو پچھلے پچھتر برسوں سے اپنی زمین پر جاری ہے، اسے جرم میں تبدیل کرنا کسی بین الاقوامی انصاف کی ترجمانی نہیں کرتا۔
ہماری جنگ، بین الاقوامی انسانی قانون کے اصولوں کے دائرے میں آتی ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی ایک منظم عسکری قوت ہے جو تمام عالمی جنگی ضوابط، کی روشنی میں اپنی کارروائیاں انجام دیتی ہے۔ ہم وہ غیر ریاستی قوت ہیں جو قابض کے مقابل اپنے لوگوں کے تحفظ کے لیے کھڑی ہے۔ اگر دنیا میں کسی بھی جگہ ریاستی جبر، نسل کشی اور غلامی کے خلاف مزاحمت جائز ہے، تو بلوچستان اس اصول سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔
ترجمان نے کہاکہ ہماری جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہماری سرزمین پر قابض آخری سپاہی موجود ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب ایک قوم کو اس کی زمین، اس کی شناخت، اس کی زبان اور اس کے وسائل سے محروم کر دیا جائے، تو ہر فرد فدائی بن جاتا ہے۔ آج بلوچستان میں ہر باشعور بلوچ فدائی ہے۔ یہ جنگ صرف بندوق کی نہیں، شعور، قربانی، اور اجتماعی عزتِ نفس کی جنگ ہے۔
مزید کہاکہ امریکہ کا یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب بلوچستان کے قیمتی معدنی ذخائر عالمی سرمایہ دارانہ مفادات کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان، ان ذخائر کو بیرونی کمپنیوں کے سامنے پیش کر رہا ہے، اور بلوچستان کو ایک خاموش اقتصادی کالونی میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں، جب ایک قومی مزاحمت ان منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو، اسے عالمی سطح پر غیر قانونی قرار دینا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ہم اس صورتحال کو سمجھتے ہیں، اور ہم اپنی صف بندی اسی ادراک کے ساتھ کرتے ہیں۔
ترجمان نے کہاکہ ہم دنیا کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بلوچستان آئیں، دیکھیں کہ ہماری سرزمین پر کیا ہو رہا ہے۔ وہ خود ان اجتماعی قبروں کو دیکھیں جن میں ہمارے نوجوان دفن کیے گئے۔ وہ ان ماؤں کی آنکھوں میں جھانکیں جن کے بیٹے برسوں سے لاپتہ ہیں۔ وہ ان شہروں کو دیکھیں جہاں بولنے پر پابندی ہے، اور ان دیہاتوں کو جہاں رات کے اندھیرے میں فوجی آپریشنز کیے جاتے ہیں۔ اور پھر فیصلہ کریں کہ اگر اس سب کے خلاف ایک منظم مزاحمت اٹھے تو کیا وہ دہشتگردی کہلائے گی، یا وہ انسان ہونے کی دلیل ہوگی؟
امریکہ اور عالمی برادری کو یہ بنیادی حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ بلوچ قوم اور اس کی انقلابی مزاحمت فطری طور پر اُن عالمی قوتوں کے قریب تر ہے جو انصاف، استحکام اور اصولی شراکت داری پر یقین رکھتی ہیں۔ بی ایل اے ایک ایسی مزاحمتی تنظیم ہے جو مذہبی انتہاپسندی سے پاک، ایک منظم قومی سوچ اور دنیا کے ساتھ باوقار تعلقات پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے اپنی تاریخ میں ہر اس عالمی اصول کو پامال کیا ہے جس پر مہذب اقوام کی شراکت داری استوار ہوتی ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ پاکستان نے بارہا اپنے معاہدوں، وعدوں اور اعتماد کو مفاد پرستی کی نظر کیا، اور یہی روش اسے ایک ناقابل اعتبار ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے لاتی ہے۔ اگر امریکہ خطے میں حقیقی استحکام، زمینی سچائیوں کے مطابق تعلقات، اور پائیدار مفادات کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے تو اسے اپنے فطری اتحادیوں کو پہچاننا ہوگا۔ بلوچ قوم، جو جدید، مزاحمتی اور اصولی مزاج رکھتی ہے، اور بلوچ لبریشن آرمی، جو صرف اپنے وطن کی آزادی اور انصاف کے لیے میدان میں ہے، وہ قوتیں ہیں جنہیں مضبوط کرنا ہی اس خطے میں کسی دیرپا امن اور اصولی توازن کی ضمانت بن سکتا ہے۔
بیان کے آخر میں کہاکہ ہم اپنی قوم سے وعدہ کرتے ہیں کہ بی ایل اے اپنی نظریاتی، عسکری اور انقلابی ذمہ داری سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ہم ریاستی بیانیے، بین الاقوامی لیبل یا کسی عالمی فیصلے کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیں گے۔ ہم اپنی جنگ کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک بلوچ قومی آزادی و خودمختاری حاصل نہیں ہوتی۔