اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ اور بلوچستان میں گرفتار بلوچ یکجہتی کمیٹی “بی وائی سی” کی قیادت کے لواحقین گذشتہ 44 روز سے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔
مظاہرین نے حکومت اور ریاستی اداروں سے اپنے جبری طور پر لاپتہ پیاروں کی بازیابی اور انتقامی کاروائیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے، تاہم تاحال کسی حکومتی نمائندے نے ان سے مذاکرات یا رابطہ نہیں کیا۔
احتجاجی کیمپ میں شریک لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ ابتدا ہی سے ریاست کے سامنے دو بنیادی مطالبات رکھتے آئے ہیں جن میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ اور لاپتہ افراد کی بحفاظت بازیابی سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کے خلاف جاری انتقامی کاروائیوں کو روکنا اور گرفتار رہنماؤں کی رہائی شامل ہے۔
مظاہرین نے شکوہ کیا کہ طویل احتجاجی کیمپ کے باوجود حکام کی جانب سے مسلسل خاموشی برتی جا رہی ہے، جس سے لواحقین کی بے چینی اور مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔
دھرنے میں شریک لواحقین نے یہ بھی بتایا کہ احتجاج کے دوران انہیں پولیس ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کے تحفظ اور بنیادی شہری حقوق کے حوالے سے مزید خدشات جنم لے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے سنگین انسانی حقوق کے بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا حکومت پاکستان سے اس مسئلے کے حل اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کر چکی ہیں، تاہم زمینی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی سامنے نہیں آئی۔
لواحقین کا مزید کہنا تھا ہمارا اسلام آباد میں جاری یہ دھرنا اس بات کی تازہ مثال ہے کہ بلوچستان کے عوام اپنے پیاروں کی بازیابی اور بنیادی حقوق کے حصول کے لیے مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں، مگر ہماری پکار تاحال اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچی۔
مزید برآں دھرنے میں شریک لواحقین نے اعلان کیا ہے کہ وہ 30 اگست جبری گمشدگیوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک کانفرنس منعقد کرینگے، اس حوالے سے انہوں نے اسلام آباد میں موجود صحافیوں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنان سے شرکت کی اپیل کی ہے۔