اسلام آباد: بلوچ لواحقین کے دھرنے کو تین ہفتے مکمل: ریاستی بے حسی کا عمل جاری

12

اسلام آباد دھرنے کا اکیسواں دن بلوچ خاندانوں کا احتجاج بدستور جاری، ریاستی خاموشی پر مظاہرین کا شدید ردعمل۔

آج اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری بلوچ خاندانوں کے احتجاج کو مسلسل اکیس دن مکمل ہو گئے ہیں، وفاقی دارالحکومت میں شدید گرمی اور دھوپ کے باوجود، لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر حراست رہنماؤں کے اہلِ خانہ بدستور پُرامن دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

احتجاجی مظاہرین میں بزرگ خواتین، بچے اور نوجوان شامل ہیں جو گزشتہ تین ہفتوں سے کھلے آسمان تلے اپنے پیاروں کی بازیابی اور بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

باوجود اس کے کہ دھرنا مکمل طور پر پُرامن ہے مظاہرین کو اب تک پریس کلب کے سامنے کیمپ لگانے یا سائے کا کوئی انتظام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، انہیں روڈ پر بیٹھنے پر مجبور کیا گیا ہے جبکہ سڑک بدستور بند ہے۔

اسلام آباد پولیس و انتظامیہ مظاہرین پر مسلسل دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ علاقہ خالی کریں، لیکن مظاہرین کوئی متبادل جگہ یا سہولت فراہم نہیں کی جارہی۔

مظاہرین نے اپنی روزانہ کی اپیلوں میں ریاستی اداروں کی خاموشی اور پاکستانی میڈیا کی چشم پوشی پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہرِ اقتدار میں بیٹھے ہمارے چیخ و پکار کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے میڈیا اس ریاستی ناانصافی میں برابر کا شریک ہے۔ لیکن ہم اپنی جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد دھرنے میں شریک بلوچ لواحقین نے حکومت کے سامنے دو مطالبات پیش کئے ہیں جن میں یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں پر قائم جھوٹے مقدمات کا خاتمہ اور ان کی فوری رہائی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی شامل ہے۔

مظاہرین نے واضح کیا ہے کہ وہ ان مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے انہیں کتنا ہی نظر انداز کیا جائے یا دباؤ میں لانے کی کوشش کی جائے۔

اسلام آباد دھرنے میں بلوچ لواحقین سے اظہار یکجہتی کے لئے سول سوسائٹی و انسانی حقوق کے کارکنان بھی شریک ہوئے جہاں انکا کہنا تھا یہ دھرنا نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتا ہے انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس دھرنے اور اس کے پس منظر میں جاری جبری گمشدگیوں کو سنجیدگی سے لیں اور آواز بلند کریں۔

اکیس دن گزرنے کے باوجود مظاہرین کے مطالبات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، نہ ہی حکومت کی جانب سے کسی قسم کا بامعنی رابطہ یا مذاکرات کی کوشش کی گئی ہے۔

مظاہرین کے مطابق ان کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ان کے پیارے بازیاب نہیں ہو جاتے اور ریاست بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ختم نہیں کرتی۔