اسلام آباد: بلوچستان کی عدالتیں آئینی تقاضوں کے بجائے ریاستی دباؤ کے تحت فیصلے دے رہی ہیں ۔ بلوچ مظاہرین

32

بی وائی سی قیادت کی رہائی کے لیے دھرنا جاری، اہل خانہ کی پریس کانفرنس، عدالتی کارروائیوں، پولیس ہراسانی، اور ریاستی بے حسی پر شدید تحفظات کا اظہار۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کے اہل خانہ اور جبری گمشدگیوں کے متاثرہ خاندانوں نے 3 اگست 2025 کو اسلام آباد میں ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے 19 روز سے جاری دھرنے، عدالتی کارروائیوں، پولیس ہراسانی، اور ریاستی بے حسی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

پریس کانفرنس کے آغاز میں مقررین نے کہا کہ ہم اس وقت اسلام آباد میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، بارش، شدید گرمی، دھوپ اور ریاستی دباؤ کے باوجود، صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج کسی سیاسی مفاد یا ذاتی فائدے کے لیے نہیں، بلکہ ریاستی حراست میں موجود ان افراد کی رہائی کے لیے ہے جن پر کوئی قانونی جرم ثابت نہیں ہوا۔

پریس کانفرنس میں گزشتہ روز کوئٹہ کی انسدادِ دہشتگردی عدالت میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی، ماما غفار، شاہ جی، اور بیبرگ بلوچ کی پیشی کا حوالہ دیا گیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ پولیس کوئی واضح شواہد پیش نہیں کر سکی، اس کے باوجود عدالت نے ایک بار پھر ان کے جسمانی ریمانڈ میں 20 دن کی توسیع کر دی۔ قانونی ماہرین کا مؤقف ہے کہ انسداد دہشتگردی ایکٹ (ATA) کے تحت 14 دن سے زیادہ ریمانڈ صرف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ممکن ہے، جو یہاں موجود نہیں تھے۔

اہل خانہ نے کہا کہ بلوچستان کی عدالتیں آئینی تقاضوں کے بجائے ریاستی دباؤ کے تحت فیصلے دے رہی ہیں اور انصاف کے عمل کو ایک نوآبادیاتی آلے میں بدل دیا گیا ہے۔ عدلیہ کا بنیادی فریضہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے، مگر یہاں عدالتیں ریاستی جبر میں خاموش شریک بنی ہوئی ہیں۔

پریس کانفرنس میں اسلام آباد پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے غیر انسانی رویے پر بھی شدید تنقید کی گئی۔ مقررین نے بتایا کہ دھرنے میں شریک بلوچ طلبہ و نوجوانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، اہل خانہ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اور دھرنا ختم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی کوششیں بھی کی گئی ہیں، حالانکہ یہ احتجاج مکمل طور پر پرامن ہے۔

اسلام آباد کے شہریوں سے معذرت کا اظہار کرتے ہوئے شرکاء نے کہا کہ اگر ہمیں احتجاج کے لیے پریس کلب کے سامنے کی اجازت دی جاتی تو عوام کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہوتی۔ لیکن انتظامیہ نے وہ مقام بند کر دیا، جس کے باعث ہمیں سڑک پر بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔ مقررین نے واضح کیا کہ راستے بند ہونے کی اصل ذمہ داری دھرنا دینے والوں پر نہیں بلکہ ریاستی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔

شرکاء نے اسلام آباد انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ انہیں پریس کلب کے سامنے دھرنے کی اجازت دی جائے تاکہ شہریوں کو مزید مشکلات نہ ہوں اور احتجاجی آواز مؤثر طور پر میڈیا اور حکام تک پہنچ سکے۔

پریس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کے اداروں، وکلاء برادری اور سول سوسائٹی سے اپیل کی گئی کہ وہ ذاتی و جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر اس انسانی مسئلے پر آواز بلند کریں۔ مقررین نے کہا کہ یہ صرف بلوچوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر اُس شہری کا مسئلہ ہے جو آزادیِ اظہار اور احتجاج کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔

پریس کانفرنس کے اختتام پر اہل خانہ نے واضح پیغام دیا کہ وہ اس دھرنے سے اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو فوری اور بلا شرط رہا نہیں کیا جاتا۔ اگر ریاست نے جبر جاری رکھا تو یہ تحریک مزید پھیلے گی، آوازیں مزید بلند ہوں گی، اور عوامی حمایت میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے صبر کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔