آٹھ سالہ بچے کو دہشت گردی کے الزام میں عدالت میں پیش کرنا نہایت تشویش ناک ہے۔ ایچ آر سی پی

46

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے تربت میں ایک کمسن بچے کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں کمیشن نے کہا ہے کہ ایک آٹھ سالہ بچے کو دہشت گردی کے الزام میں عدالت میں پیش کرنا نہایت تشویش ناک ہے۔ بچے پر الزام ہے کہ اس نے انسانی حقوق کے ایک کارکن کی تقریر کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا۔

ایچ آر سی پی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ “ایکس” پر جاری بیان میں کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کا اس نوعیت کا غلط استعمال بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ بچے کے خلاف تمام الزامات فوری طور پر واپس لیے جائیں اور ایف آئی آر کا ازسرِ نو جائزہ لے کر اس اقدام کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے تربت کے علاقے آپسر کے رہائشی آٹھ سالہ صہیب ولد خالد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی، جس کے بعد بچے کے والد کو اُسے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کرنا پڑا۔

بچے پر الزام ہے کہ اُس نے سول سوسائٹی کے رکن گلزار دوست کی ایک تقریر سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹک ٹاک” پر شیئر کی تھی۔

واقعے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک کمسن بچے کے خلاف دہشت گردی جیسے سنگین الزام کے تحت قانونی کارروائی نہ صرف غیر مناسب ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔

متعلقہ حکام کی جانب سے تاحال اس معاملے پر کوئی باضابطہ مؤقف سامنے نہیں آیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنان نے مطالبہ کیا ہے کہ بچے کے خلاف مقدمہ فوری طور پر واپس لیا جائے، اور آئندہ اس نوعیت کی کارروائیوں سے اجتناب برتا جائے جو بچوں کے ذہنی و سماجی مستقبل پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔

یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بلوچستان میں سی ٹی ڈی پر الزام ہے کہ وہ پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ایما پر بلوچ شہریوں اور سیاسی کارکنوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناتی ہے۔ سی ٹی ڈی پر متعدد بار ماورائے عدالت قتل اور جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو ہلاک کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔