کوئٹہ میں پولیس کی گاڑیوں کو دو مقامات پر دستی بم حملوں میں نشانہ بنایا گیا ہے جس سے ایک شخص ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
پولیس کے مطابق پہلا حملہ سبی روڈ کے علاقے کلی زرین میں اس وقت ہوا جب نامعلوم افراد نے پولیس کی گشتی گاڑی پر دستی بم پھینکا۔ دھماکے کے نتیجے میں قریب موجود ایک راہ گیر موقع پر ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہو گیا۔
دوسرا واقعہ سبزل روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے قریب پیش آیا، جہاں نامعلوم حملہ آوروں نے ایک اور پولیس گاڑی پر دستی بم پھینکا۔ تاہم دستی بم پھٹ نہ سکا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کو طلب کیا گیا، جس نے موقع پر پہنچ کر دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنا دیا۔
اس سے قبل گذشتہ روز کوئٹہ ہی میں پولیس کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول آئی ای ڈی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
اگست کے آغاز سے بلوچستان مسلسل حملوں کی لپیٹ میں ہے۔ اب تک کسی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی، حکومت نے سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر اگست کے شروع میں بلوچستان میں موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تھی۔
ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ سروس معطل کرنے کی اقدام مؤثر ثابت نہیں ہوا۔ نہ صرف حملوں کا سلسلہ برقرار رہا بلکہ شدت میں بھی اضافہ دیکھا گیا، جس کے نتیجے میں فوجی افسران سمیت متعدد اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ سرمچار نہ صرف اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید مضبوط اور منظم ہو رہے ہیں، اور محض تکنیکی رکاوٹیں یا وقتی اقدامات ان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے میں ناکام ہیں۔