بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قائم احتجاجی کیمپ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 5914 دن مکمل ہوگئے۔
اس موقع پر بی ایس او کے سابقہ چیرمین مہیم خان بلوچ سمیت مختلف مکاتب فکر کے افراد نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور اظہار یکجہتی کی۔
آج جبری لاپتہ محمود علی لانگو کے والدہ نے احتجاج میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کے کیس کو حکومت سمیت عدلیہ اور لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیش کے پاس جمع کرایا ہے اور بیٹے کی باحفاظت بازیابی کے لیے پرامن احتجاج کرتا آرہا ہوں، لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود نہ میرا بیٹا بازیاب ہوا اور نہ ہی مجھے اس کے حوالے سے معلومات فراہم کیا جارہا ہے جسکی وجہ سے میں شدید پریشانی میں مبتلا ہوں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے کہا کہ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں کے دروازوں پر دستک دینے کے ساتھ پرامن احتجاج بھی کررہے ہیں انکا مطالبہ یہی ہے کہ انکے ساتھ ملکی قوانین کے تحت برتاو اختیار کیا جائے، اگر انکے لاپتہ افراد کسی غیر قانونی اقدام میں ملوث ہے تو انہیں منظر عام پر لاکر عدالت میں پیش کیا جائے اور انہیں ان کے پیاروں کی جبری گمشدگی کی اذیت سے نجات دلائی جائے۔
انہوں نے کہاکہ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لواحقین کے آئینی مطالبہ پر کسی بھی سطح پر عملی اقدامات اٹھائیں نہیں جارہے ہیں، جسکی وجہ سے لواحقین شدید ذہنی کے دباو کے شکار ہو کر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔
نصراللہ بلوچ نے کہا کہ یہ حکومت اور انصاف کی فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو ملکی قوانین کے تحت انصاف فراہم کرنے میں اپنی عملی کردار ادا کرے۔
انہوں نے حکومت اور ملکی اداروں کے سربراہوں سے مطالبہ کیا کہ محمود علی لانگو سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنا کر لواحقین کو زندگی بھر کی اذیت سے نجات دلائی جائے۔