سب آلٹرن فاشزم – مزار بلوچ

75

سب آلٹرن فاشزم

تحریر: مزار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کے اوراق پر سب سے بڑا دھوکہ وہی لکھا گیا ہے جو اپنوں نے اپنوں کے ساتھ کیا۔ سب آلٹرن فاشزم دراصل دلالی کی وہ آگ ہے جو دشمن اپنی چالاکیوں سے ہمارے دامن میں ڈال جاتا ہے۔ یہ وہ زہر ہے جو محکوم کے لہو میں اتارا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی ہی آزادی کے پرچم کو پھاڑنے لگے۔ تاریخ میں ہمیشہ جب نوآبادیاتی آندھیاں چلیں تو فرنگی حاکم نے تلوار سے زیادہ سازش پر بھروسہ کیا۔ اُس نے ہمارے ہی قوم سے دلال تراشے، ہمارے ہی گھروں سے سپاہی بھرتی کیے، اور ہمارے ہی بچوں کے ہاتھوں آزادی کے متوالوں کو قتل کرایا۔ الجزائر کے ہَرکیس ہوں یا ہندوستان کے سپاہی، سب نے اپنے زخم اپنی ہی قوم کو دیے۔ یہی ہے سب آلٹرن فاشزم، دشمن کا وہ آئینہ جس میں مظلوم اپنی ہی صورت کو قاتل بنا کر دیکھتا ہے۔

سب آلٹرن فاشزم دراصل وہ سماجی و سیاسی المیہ ہے جس میں محکوم اور مظلوم طبقے کے چند افراد خود اپنی ہی قوم کے خلاف استعماری یا فاشسٹ قوتوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر سے لے کر افریقہ اور الجزائر تک، نوآبادیاتی طاقتوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے ذریعے محکوم اقوام کو ٹکڑوں میں بانٹا، اور ان ہی کے درمیان سے غدار، دلال اور مقامی فوجی بھرتی کر کے آزادی کے مجاہدین کے خلاف کھڑا کیا۔

میں اس مضمون پر اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آج بلوچستان میں مقامی سامراجی وفاداروں نے بلوچ سرمچاروں پر حملے کر کے آزادی کے ایک اور چراغ کو بجھا دیا ہے۔ بلوچستان میں حالیہ عرصے میں ایسے واقعات تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں اور سامراج اس پر بے حد سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ آزادی کے قافلے کو اندر سے توڑ سکے اور مظلوم قوم کے حوصلے پست کرے۔ یہ حملے صرف جسمانی طاقت کے ذریعے نہیں، بلکہ نفسیاتی اور سماجی دباؤ کے جال بچھا کر کیے جا رہے ہیں۔

یہ سب آلٹرن فاشزم دراصل استعماری ذہنیت کی وہ منحوس پیداوار ہے جو مظلوم کے دل میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف نفرت اور حاکم کے ساتھ وفاداری پیدا کرتی ہے۔ اس کے اسباب میں ذاتی مفادات، طاقت کا لالچ، زندہ رہنے کی مجبوری اور نوآبادیاتی پروپیگنڈے کے ذریعے ذہنی غلامی پیدا کرنا شامل ہیں۔ کچھ لوگ طاقت اور دولت کی لالچ میں اپنے ہی خون کو بیچ ڈالتے ہیں، کچھ حاکم کی خوشنودی کے بدلے وقتی سکون تلاش کرتے ہیں، کچھ پروپیگنڈے کا ساتھ دے کر آزادی کی جدوجہد کو جان بوجھ کر دہشت گردی ماننے لگتے ہیں، اور کچھ محض اپنی بقا کے لیے دشمن کی چھاؤں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ مگر نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے، قوم کی پیٹھ پر خنجر اپنے ہی ہاتھوں سے گھونپا جاتا ہے۔

ہر نوآبادیاتی نظام میں سامراج کے ساتھ وہی لوگ کھڑے ہوتے ہیں جو اپنی لالچ، خودغرضی اور کمزوری کی آڑ میں مظلوم قوم کے مستقبل کو قربان کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ناجائز دولت کے پیچھے دوڑتے ہیں، منشیات کے کاروبار میں ملوث ہیں، قبضہ مافیا کے طرۂ کار اپناتے ہیں، مذہب کو بیچ کر اپنی پوزیشن مستحکم کرتے ہیں، یا غلامی کی نعمت سے اپنی شہرت اور طاقت کماتے ہیں۔ یہی طبقہ نوآبادیاتی نظام میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔

اور وہ مظلوم لوگ، پڑھے لکھے نوجوان، انقلابی رہنما، آزاد خیال صحافی انہی کے آنکھوں میں کھاٹے کی مانند ہوتے ہیں، ان کی ہر سوچ اور جدوجہد ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ طاقت اور دولت کے نشے میں ڈوبے یہ لوگ اپنے ہی لوگوں پر ایسے بھاری ہو جاتے ہیں کہ دشمن صرف پیسوں کی بارش کر کے تماشا دیکھتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر یہ لوگ سامراج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنی گوریلا فوج ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیتے ہیں، اور آزادی اور انصاف کے علمبرداروں کو شہید کرتے ہوئے اسے اپنی کامیابی کا سب سے بڑا معیار سمجھتے ہیں۔

مظلوم قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ سامراج صرف بندوق اور توپ کے زور سے ہی نہیں جیتتا، بلکہ وہ ایک ایسی سوچ مسلط کرتا ہے جو محکوم کو اپنے ہی بھائیوں کا دشمن بنا دیتی ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جس کے تحت انسان کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ محض سر ہے اور سامراج پتھر، اور سر اور پتھر کی لڑائی میں شکست ہمیشہ سر کی ہی مقدر ہے۔ چنانچہ محکوم کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ سر کی بجائے پتھر کا ساتھ دو، تاکہ خود کو طاقتور محسوس کر سکو۔ یہی شکست خوردہ ذہنیت دلالی اور سبآلٹرن فاشزم کی بنیاد بنتی ہے۔

یہی نہیں، سامراج مذہب کو بھی اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔ وہ ایسے مولوی اور مفتی تیار کرتا ہے جو قوم کو یہ باور کرائیں کہ سامراج مقدس ہے، مذہب کا رکھوالا ہے، اور آزادی کی تحریکیں دراصل مذہب دشمن اور غیر شرعی ہیں۔ یوں آزادی کی آواز کو سیکولرازم کے نام پر بدنام کیا جاتا ہے اور عوام کو مذہبی جنون کے ذریعے اپنے ہی آزادی پسند جہدکاروں کے خلاف کھڑا کیا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سامراج ایک اور زہریلی چال کھیلتا ہے۔ وہ قوم کے نوجوانوں کو منشیات میں الجھاتا ہے۔ منشیات فروش تیزی سے دولت کمانے کے لالچ میں قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتے ہیں، اور جب آزادی پسند تحریکیں منشیات کے اس کاروبار کو مظلوم قوم کے نوجوان نسل کو تباہ کرنے کی سازش مان کر اسے روکنے کی کوشش کرتی ہیں، تو منشیات فروش بھی سامراج کے ہم نوا بن جاتے ہیں۔ ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ دولت صرف چند لمحوں کا زہر ہے اور آنے والی نسلوں کی تباہی کی قیمت پر ہے۔

پھر کچھ خاندان ایسے ہوتے ہیں جو سامراج کے قبضے سے پہلے عام لوگوں میں شمار ہوتے تھے، مگر غلامی قبول کرنے کے بعد دولت، طاقت، شہرت اور نوکریاں پا لیتے ہیں۔ غلامی ان کے لیے نعمت بن جاتی ہے، کیونکہ ان کی حیثیت اسی غلامی سے وابستہ ہوتی ہے۔ وہ کبھی آزادی نہیں چاہتے، کیونکہ آزادی ان کی مصنوعی حیثیت اور جھوٹے وقار کو چھین لے گی۔ یوں سامراج نہ صرف باہر سے محکوم قوم پر حکومت کرتا ہے بلکہ اندر سے ان کے ذہنوں اور خوابوں کو غلام بناتا ہے۔

یہ سوچ، یہ شکست خوردگی، یہ لالچ اور یہ دلالی وہ ہتھیار ہیں جن کے ذریعے سامراج کو ناقابلِ شکست دکھایا جاتا ہے اور مظلوم قوم اپنے ہی قافلے کے خلاف کھڑی ہو جاتی ہے۔ ان سارے لوگوں کو مہارت سے ترتیب دی گئی لمبی سازشوں کے جال میں پھنسا کر ایک مخصوص ذہنیت کا قیدی بنایا جاتا ہے، جو انہیں صرف ذات پرست اور خودغرض بناتی ہے۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو اپنے ہی بھائیوں، ہم وطنوں اور قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کو معمولی یا ناگزیر سمجھنے پر آمادہ کر دیتی ہے، اور یہ لوگ سامراج کے اس ظالم اور جابر نظام کے ساتھ اس قدر جُڑ جاتے ہیں کہ اپنے ہی قوم کے مظلوموں کے خون کو محض ایک واقعہ یا سانحہ نہیں دیکھتے، بلکہ اسے اپنے لیے فائدہ مند سمجھ کر کبھی خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور کبھی شادمانی کی رسمیں بھی ادا کرتے ہیں۔

یوں یہ لوگ اپنے اخلاقی اور انسانی معیاروں سے الگ ہو کر غیر جانبدار یا پھر سامراج کے حکم پر فعال دشمن بن جاتے ہیں۔ وہ اس نرغے میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ اپنی قوم کی جدوجہد، آزادی کے پرچم اور انصاف کے علمبرداروں کے خلاف عمل کرنا انہیں ایک درست اور جائز راستہ لگنے لگتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔