بلوچ مسلح تنظیموں کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے
تحریر: ریحان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ مسلح تنظیموں کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور جنگ کی حکمت عملی اپنانا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، کیونکہ پاکستانی فوج زمینی جنگ میں مسلسل ناکامیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ موجودہ دور میں، جہاں ڈرونز، کواڈ کاپٹرز، اور میزائلوں جیسی جدید ٹیکنالوجی نے جنگی حکمت عملی کو یکسر بدل دیا ہے، بلوچ سرمچاروں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کو بڑھائیں اور پاکستانی فوج کے خلاف فضائی حملوں کی صلاحیت کو مضبوط کریں۔ پاکستانی فوج، جو زمینی جنگ میں پسپائی اختیار کر چکی ہے، اب فضائی برتری کے ذریعے اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں بلوچ مسلح تنظیموں کو فضائی ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا تاکہ دشمن کو ہر محاذ پر چیلنج کیا جا سکے۔
زمینی جنگ میں پاکستانی فوج کی ناکامی
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، اور دیگر مسلح تنظیموں نے گزشتہ برسوں میں پاکستانی فوج کے خلاف زمینی جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ متعدد رپورٹس کے مطابق، بلوچ سرمچاروں نے پاکستانی فوج کے کیمپوں، چوکیوں، اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنایا، جس سے فوج کو نہ صرف جانی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ اس کی حکمت عملی بھی کمزور ہوئی۔ مثال کے طور پر، مئی 2025 میں بی ایل اے نے 111 سے زائد کارروائیاں کیں، جن میں پاکستانی فوج کے 120 اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ، جعفر ایکسپریس پر قبضے اور دیگر اہم حملوں نے فوج کی زمینی گرفت کو کمزور کیا ہے۔ پاکستانی فوج کی یہ ناکامیاں ظاہر کرتی ہیں کہ زمینی جنگ میں سرمچاروں نے برتری حاصل کر لی ہے، اور اب وقت ہے کہ اس برتری کو فضائی میدان تک وسعت دی جائے۔
پاکستانی فوج کا فضائی برتری پر انحصار
زمینی جنگ میں ناکامی کے بعد، پاکستانی فوج نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے فضائی ٹیکنالوجی، خاص طور پر ڈرونز اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال بڑھا دیا ہے۔ دی بلوچستان پوسٹ کے مطابق، پاکستانی فوج بلوچ سرمچاروں کی نقل و حرکت کی نگرانی، ناکہ بندیوں، اور فضائی جاسوسی کے لیے ڈرونز اور کواڈ کاپٹرز کا استعمال کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، گائیڈڈ میزائل حملوں اور کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنز میں ڈرونز کو مرکزی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ حکمت عملی نہ صرف بلوچ سرمچاروں کے خلاف فوجی کارروائیوں کو تیز کرنے کے لیے ہے بلکہ عام شہریوں میں خوف و ہراس پھیلانے کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔ مثال کے طور پر، جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد پاکستانی فوج نے ہیلی کاپٹروں اور ڈرونز کے ذریعے جوابی کارروائی کی کوشش کی، لیکن زمینی دستوں کی پسپائی نے ان کی کمزوری کو عیاں کر دیا۔
ٹی ٹی پی کی فضائی جنگ کی کامیابیوں سے سبق!
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حالیہ برسوں میں فضائی جنگ کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جو بلوچ مسلح تنظیموں کے لیے ایک مثال ہو سکتی ہیں۔ ٹی ٹی پی نے نہ صرف پاکستانی فوج کے خلاف ڈرونز اور کواڈ کاپٹرز کے ذریعے کامیاب حملے کیے بلکہ اپنا میزائل سسٹم بھی تیار کیا، جو فوج کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، اگست 2025 میں ٹی ٹی پی نے باجوڑ میں پاکستانی فوج کے ایک فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا، جس میں دو پائلٹس سمیت پانچ فوجی ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ، ٹی ٹی پی نے کواڈ کاپٹرز کے ذریعے ہدف بنانے کی صلاحیت کو بہتر بنایا، جس سے وہ فوج کے حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہی۔ یہ کامیابیاں ظاہر کرتی ہیں کہ کم وسائل کے باوجود، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال دشمن کی فوجی برتری کو کمزور کر سکتا ہے۔
بلوچ مسلح تنظیموں کے لیے فضائی جنگ کی حکمت عملی
بلوچ مسلح تنظیموں کو پاکستانی فوج کے خلاف فضائی جنگ کی صلاحیت کو ترقی دینے کے لیے درج ذیل اقدامات پر توجہ دینی چاہیے:
-
ڈرون اور کواڈ کاپٹرز کی تیاری اور استعمال: بلوچ سرمچاروں کو چاہیے کہ وہ کم لاگت اور آسانی سے دستیاب کواڈ کاپٹرز اور ڈرونز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کریں۔ یہ ڈیوائسز جاسوسی، نگرانی، اور ہدف بنانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایف پی وی (فرسٹ پرسن ویو) ڈرونز، جو روس-یوکرین جنگ میں کامیابی سے استعمال ہوئے، کم لاگت اور اعلیٰ درستگی کے حامل ہیں۔ ان کا استعمال پاکستانی فوج کی نقل و حرکت کو ناکام بنا سکتا ہے۔
-
میزائل سسٹمز کی تیاری: ٹی ٹی پی کی طرح، بلوچ تنظیموں کو دیسی ساختہ میزائل سسٹمز پر کام کرنا چاہیے۔ یہ میزائل فوج کے ہیلی کاپٹروں، ڈرونز، اور دیگر فضائی اثاثوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ سادہ راکٹ لانچرز، جیسے کہ بی ایم-12، جو بی ایل اے کے زیر استعمال ہیں، کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
-
الیکٹرانک وارفئیر کی صلاحیت: پاکستانی فوج کے ڈرونز اور مواصلاتی نظاموں کو جام کرنے کے لیے الیکٹرانک وارفئیر ٹیکنالوجی، جیسے کہ بیک پیک جامرز، کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی فوج کی فضائی نگرانی اور حملوں کو ناکام بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
-
تربیت اور تکنیکی مہارت: بلوچ نوجوانوں کو ڈرون آپریشن، سائبر انٹیلیجنس، اور الیکٹرانک وارفئیر کی تربیت فراہم کی جانی چاہیے۔ روس-یوکرین جنگ کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ گیمرز اور تکنیکی ماہرین ڈرون آپریشنز میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بلوچ سرمچاروں کو اسی طرح کی تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کرنی چاہیے۔
-
اتحاد اور وسائل کا حصول: بلوچ تنظیموں کو اپنے وسائل کو یکجا کرنا ہوگا اور بیرونی امداد کے ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔ اگرچہ پاکستان الزام لگاتا ہے کہ بلوچ تنظیموں کو بھارت اور افغانستان سے امداد ملتی ہے، لیکن یہ دعوے متنازع ہیں۔ تاہم، بلوچ تنظیموں کو چاہیے کہ وہ عالمی مارکیٹ سے سستی اور موثر ٹیکنالوجی حاصل کریں، جیسے کہ چینی ساختہ ڈرونز، جو کم لاگت لیکن اعلیٰ کارکردگی کے حامل ہیں۔
چیلنجز اور امکانات
فضائی جنگ کی صلاحیت کو ترقی دینے میں کئی چیلنجز ہیں، جیسے کہ مالی وسائل کی کمی، تربیت یافتہ ماہرین کی کمی، اور بین الاقوامی پابندیاں۔ تاہم، ٹی ٹی پی کی کامیابیوں سے واضح ہے کہ محدود وسائل کے باوجود، دیسی ساختہ حل اور عالمی مارکیٹ سے سستی ٹیکنالوجی کے حصول سے یہ ممکن ہے۔ بلوچ تنظیموں کو اپنی انٹیلی جنس، لاجسٹکس، اور آپریشنل صلاحیتوں کو مربوط کرنا ہوگا تاکہ وہ فضائی میدان میں بھی پاکستانی فوج کو چیلنج کر سکیں۔
نتیجہ
بلوچ مسلح تنظیموں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں قدم رکھیں اور پاکستانی فوج کے خلاف فضائی جنگ کی حکمت عملی اپنائیں۔ ڈرونز، کواڈ کاپٹرز، اور میزائلوں کا استعمال نہ صرف فوج کی فضائی برتری کو چیلنج کر سکتا ہے بلکہ بلوچ سرمچاروں کی زمینی کامیابیوں کو مزید مستحکم کر سکتا ہے۔ ٹی ٹی پی کی کامیابیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، بلوچ تنظیموں کو تکنیکی تربیت، وسائل کے حصول، اور مربوط حکمت عملی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس طرح وہ نہ صرف پاکستانی فوج کے لیے فضا کو تنگ کر سکتے ہیں بلکہ اپنی تحریک کو ایک نئی جہت دے سکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔