امریکہ پاکستان تعلقات اور بی ایل اے پر پابندی کے محرکات
تحریر: یلان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
حال ہی میں امریکہ کی جانب سے بی ایل اے کے فدائی یونٹ “مجید بریگیڈ” پر پابندی لگائی گئی ہے کہ مجید بریگیڈ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو بلوچستان میں پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔ اسی طرح آج سے چھ سال پہلے 2019 میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے بعد امریکہ نے بی ایل اے کو بھی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔ یاد رہے کہ مجید بریگیڈ کو امریکہ نے اس وقت ایس بی جی ڈی لسٹ میں شامل کیا ہے جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر امریکہ کے دورے پر تھے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان یہ فوجی ڈپلومیسی انڈیا اور پاکستان کے جنگ کے بعد سامنے آئی۔ تین ماہ کے اندر جنرل عاصم منیر کا یہ دوسرا امریکی دورہ ہے، اور امریکی جنرل کوریلہ بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان ڈپلومیسی کوئی اچانک بات نہیں ہے، بلکہ پاکستان تو پہلے ہی سے اسی کام میں لگا ہوا تھا۔ جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور دوسری طرف اگر ہم ایران اور اسرائیل کی جنگ کو بھی مثال کے طور پر لائیں، تو اس خطے میں امریکہ کو ایسا اتحادی چاہیے تھا جو خود کو بچانے کے لیے امریکہ کو دعوت دے کہ آئیں اور اس خطے کو کنٹرول کریں۔ کیونکہ تاریخ کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں، تو سرد جنگ سے لے کر “وار آن ٹیرر” تک، امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اتحادی اور ویسٹ کا پروکسی ریاست پاکستان ہی رہا تھا، اور آج بھی وہ خود کو بچانے کے لیے امریکہ سے اچھے تعلقات اس لیے بنا رہا ہے تاکہ وہ بلوچ انسرجنسی کو کاؤنٹر کر سکے۔ اور امریکہ کے مفادات یہاں کیا ہو سکتے ہیں، چین کا کیا کردار ہے، اور بلوچ تحریک خود کو کس طرح اس گریٹ گیم میں منوائے گی، اس پر آگے جا کر ہم تفصیل سے بات کریں گے۔
اس خطے میں امریکی مفاد کیا ہو سکتے ہیں؟
بین الاقوامی سیاست کا ایک اصول ہے کہ نہ کوئی کسی کا ابدی دوست ہوتا ہے اور نہ دشمن۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ اسی دور کی سیاست یا پولیٹکس کے تناظر میں ہوتا ہے۔ زمینی حالات یا خطے کی حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طاقتیں اپنے اتحادی بناتی ہیں، اور اس میں بھی یہ ضروری نہیں کہ وہ جنگ یا ہلچل کے دوران ہمیشہ اتحادی رہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ایران اور امریکہ کے تعلقات گہرے تھے، لیکن آج شاید دونوں سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ایسی طرز سیاست سے امریکہ اور جاپان دوسری عالمی جنگ کے دوران شدید جنگ میں تھے، اور امریکہ نے جاپان پر ایٹمی حملہ بھی کیا تھا، تاریخ میں اس نوعیت اور خطرناک ہتھیاروں سے حملہ کسی نے نہیں کیا تھا۔ تو اگر ہم سیاست کی حقیقت کو ذرا ہٹ کر دیکھیں، تو آج بھی یہ دونوں ممالک دشمن نہیں بلکہ اتحادی ہیں۔ یہی تو سیاست کا اصول ہے۔ اس بیان کا مقصد صرف امریکی مفادات کو مزید سمجھنے کے لیے تھا۔ اب ہم پاکستان کے ساتھ امریکہ کی ملٹری ڈپلومیسی اور امریکی مفادات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
ساوتھ ایشیا کی آج کی سیاست ایک بڑی افراتفری سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف چین کا اثر و رسوخ، دوسری طرف بھارت کی بڑھتی ہوئی طاقت، اور تیسری جانب افغانستان میں طالبان کی آمد، اس خطے کی سیاست کو تیزی سے تبدیل کر رہی ہے۔ ان سب کے درمیان بلوچستان میں جاری انسرجنسی اور بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی طاقت بھی اس گریٹ گیم کا حصہ بن چکی ہے۔ اب یہاں پاکستان کی سالمیت خطرے میں ہے اور چین کی بھی مسلسل بلوچستان میں دخل اندازی ہو رہی ہے۔ چونکہ امریکہ اس دنیا کی سب سے بڑی طاقتور ریاست ہے، اور امریکہ کی سائیکولوجی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ ہر خطے میں اس کا اثر و رسوخ ہو۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ مشرق وسطی کے بعد، یہ امریکہ کی دوسری آنکھ ہے۔ وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ یہاں میرے مقابلے کی ریاست میرے خلاف سازش کرے، کیونکہ چین پہلے سے یہاں موجود ہے اور پاکستان اور دوسرے ممالک کے ساتھ معاشی پارٹنر بن چکا ہے، جو کہ امریکہ کے لیے ایک خطرہ ہے۔ دوسری طرف بھارت، جو کہ امریکہ کے سامنے آنکھ ملا کر بات کر رہا ہے، نے اپنی خارجہ پالیسی میں امریکہ سے زیادہ روس کے ساتھ تعلقات بنانے کو ترجیح دی ہے۔ اور امریکی ٹرمپ ایڈمنسٹریشن یہ چاہتی ہے کہ اس خطے میں اس کا اثر و رسوخ کم نہ ہو۔ امریکہ کے لیے پاکستان سب سے بڑی آپشن ہے کیونکہ پاکستان بلوچ انسرجنسی کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے۔ اور اب یہاں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ملٹری ڈپلومیسی ہے کیونکہ پاکستان کو امریکی فوج ہی ڈیل کرتی ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پاکستان میں فوج کا غلبہ ہے اور امریکہ ہمیشہ اپنے مفاد کو فوج کے ذریعے ہی حاصل کرتا ہے۔ چاہے بش کی مشرف کے ساتھ پالیسی ہو، یا سرد جنگ کے دوران امریکہ اور ضیاء الحق کے تعلقات ہوں، یا آج امریکہ کی عاصم منیر کے ذریعے مفادات پورا کرنے کی کوشش ہو۔
اب ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ امریکہ کا مقصد صرف معدنیات نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ خود کی ڈومیننس ہے، جس کے ذریعے وہ بھارت کو بھی ایک طریقے سے کنٹرول کر سکتا ہے۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہے، بھارت پر ٹریف شدت سے لگ رہا ہے اور دوسری جانب پاکستان سے تعلقات بھی قائم کر رہا ہے۔ اب ہم یہاں چین کو بھی بحث میں لائیں گے، کہ چونکہ پاکستان کا معاشی اتحادی ہے اور امریکہ کا دشمن، تو پاکستان اور امریکہ کے بڑھتے تعلقات میں آخر چین کیوں خاموش ہے؟ چونکہ میرا تعلق خود بین الاقوامی تعلقات سے ہے، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہاں چین بھی وہ محسوس کر رہا ہے جو پاکستان کر رہا ہے۔ کیونکہ ظاہر سی بات ہے، جب پاکستان سے بہت کچھ لینے کے بعد امریکہ پاکستان کو بھی خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور پاکستان کی خوشی بی ایل اے پر پابندی ہے، تو چین کی خوشی بھی اسی میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چین اس حوالے سے بہت پریشان ہے، وہ ڈرتا ہے کہ شاید امریکہ بلوچ انسرجنسی کو سپورٹ نہ کرے میرے خلاف۔ پاکستان کا خوف بھی یہی ہے، لیکن اسی تناظر میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بحالی چین کے لیے کچھ حد تک قابل قبول ہے۔
امریکی پابندیاں اور آزادی کی تحریکیں
عالمی دنیا میں جو ایس ڈی جی ٹی ڈپارٹمنٹ بنایا گیا ہے، اس کا مقصد یہی ہے کہ تحریکوں، انسرجنسیز یا پروکسی گروپوں کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ اگر کوئی ریاست ان گروپوں کو مالی یا اخلاقی حمایت فراہم کرے، تو وہ اس جرم میں شریک سمجھی جائے گی۔ یہ سب ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے، لیکن حقیقت میں اس ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ طاقتور ریاستوں کے مفادات اور اثرات کی وجہ سے یہ کام کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ اس ڈپارٹمنٹ کی تخلیق کا مقصد ان تحریکوں کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینا تھا، لیکن بیشتر آزادی کی تحریکوں کو اسی لسٹ میں شامل کرنے کے پیچھے سیاسی حکمت عملیاں اور عالمی سطح پر طاقتور ممالک کے مفادات کارفرما ہیں۔ یہ سچ ہے کہ یہ فہرست، آزادانہ جدوجہد کرنے والی تنظیموں کے لیے اکثر ایک آلہ بن جاتی ہے تاکہ ان کی آواز دبائی جا سکے۔
اس ڈپارٹمنٹ کی بنیاد 2001 میں رکھی گئی تھی جب امریکہ کو القاعدہ کی جانب سے ایک بڑا حملہ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دن نائن الیون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امریکہ نے اس وقت دہشت گردی کو جواز بنا کر بہت سی ریاستوں کو تباہ کیا تھا۔ اس دوران جو تنظیمیں یا تحریکیں آزادی کی جنگ لڑ رہی تھیں، ان سب کو اس فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر ریاستوں کی خودمختاری کا ایک نظام ہوتا ہے۔ اس وقت جو ریاستیں امریکہ کی بات نہیں مانتیں یا جو کمزور تھیں، ان پر امریکہ حملہ کرتا یا ان پر پابندیاں عائد کر دیتا تھا۔ اور جو ریاستیں امریکہ کے قریبی اتحادی تھیں، ان کے لیے یہ ڈپارٹمنٹ بھی کام کرتا تھا۔ کردوں کو جو خطرہ لاحق تھا، اس کا سبب یہ تھا کہ ترکی نیٹو کا رکن تھا۔ کرد جو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے، انہیں بھی دہشت گردوں میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اسی طرح اسرائیل کے خلاف حماس سرگرم تھی اور انہیں بھی اس فہرست میں شامل کر لیا گیا۔
اسی طرح تامل ٹائیگرز کو بھی اس میں شامل کیا گیا تھا۔ چونکہ اس وقت بلوچ انسرجنسی اتنی مضبوط نہیں تھی، اس لیے وہ اس “گریٹ گیم” کا حصہ نہ بن سکی۔ القاعدہ اور طالبان دونوں کو اس فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا۔ ریاستیں اپنے مفادات کے تحت دوسرے ممالک کی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کرتی تھیں، کیونکہ جو ریاستیں ناجائز طور پر زمینوں پر قابض تھیں، وہ چاہتی تھیں کہ امریکہ جیسی طاقتیں ان کی مدد کریں تاکہ وہ ان انسرجنسیوں کا مقابلہ کر سکیں۔
اگر میں یہ کہوں کہ یہ ڈپارٹمنٹ دراصل “کاؤنٹر انسرجنسی ڈپارٹمنٹ” ہے یا یہ ریاستوں کو وسائل فراہم کرتا ہے اور جواز دیتا ہے کہ آپ انسرجنسیوں کو ختم کر سکتے ہیں، تو ہم غلط نہیں ہوں گے۔ لیکن یہ ڈپارٹمنٹ آزاد نہیں ہے، یہ امریکہ کے تابع ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، سیاست میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی، سیاست کا نام ہی مسلسل تبدیلی ہے۔ اگر ہم اچ ٹی ایس کی مثال لیں، جو جولانی کی بنائی ہوئی تنظیم تھی اور آج شام میں حکومت کر رہا ہے، اور امریکہ نے اسے دہشت گردی کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ یاد رہے کہ جولانی القاعدہ کا سابقہ کمانڈر ہے اور اچ ٹی ایس بھی القاعدہ سے الگ ہوا ایک گروپ ہے۔ جب شام میں اسد کی حکومت تھی، تو وہ امریکہ کے مفاد کے خلاف تھا، اس لیے نیٹو براہِ راست اچ ٹی ایس کو سپورٹ کرتا تھا، حالانکہ اس وقت یہ تنظیم دہشت گردوں کی فہرست میں تھی۔ لیکن جب مفاد کی بات آتی ہے، تو ریاستیں اس سب کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ جب اچ ٹی ایس نے اسد کی حکومت کا خاتمہ کیا اور شام میں اقتدار میں آیا، تو وہی جولانی، جو پہلے امریکہ کی ہٹ لسٹ میں تھا، اب امریکہ کے لیے خطرہ نہیں رہا۔ اس وقت تک اسد کی حکومت کے خلاف جتنی بھی پابندیاں تھیں، وہ سب ختم کر دی گئیں، کیونکہ اب امریکہ کے لیے اچ ٹی ایس کوئی خطرہ نہیں تھا۔ پہلے اس لیے خطرہ تھا کیونکہ وہ امریکی مفادات کی مخالفت کرتا تھا۔
پاکستان امریکہ تعلقات، مجید بریگیڈ پر پابندیاں
جیسے کہ پہلے ہم تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں کہ امریکہ اپنے مفادات کے لیے پاکستان سے ایک بار پھر ملٹری ڈپلومیسی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہاں ملٹری ڈپلومیسی کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ پاکستان کو فوجی امداد دے گا۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان یہ سوچ رہا ہو کہ امریکہ نے میرے کہنے پر مجید بریگیڈ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے، اور اب میں بی ایل اے کو ختم کرنے کے لیے امریکہ سے امداد مانگوں گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امریکی مفاد بلوچ تحریک کو ختم کرنا یا اس کے خلاف براہِ راست جنگی سپورٹ کرنا نہیں ہے، بلکہ پاکستان سے ڈومینسی حاصل کرنا ہے تاکہ چین اور بھارت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ بلوچ تحریک امریکی مفاد کے لیے قطعاً خطرہ نہیں ہے، بلکہ ہر کسی کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اور وقت کے ساتھ ریاستوں کے مفادات بھی بدلتے رہتے ہیں۔
انٹرنیشنل ریلیشنز کے عظیم تھیورسٹ مورگھن تھاو کہتے ہیں کہ ریاستوں کی سب سے اہم چیز مفاد ہے اور ان کا مفاد کبھی بھی ایک جیسا نہیں رہتا، وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ پاکستانی دانشوروں سے لے کر تاریخ اور سیاست سے ناواقف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب امریکہ بلوچ تحریک کو نقصان پہنچانے میں مدد کرے گا، لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ بلوچ آزادی کی تحریک اپنی مدد آپ کے تحت یہاں تک پہنچی ہے اور عالمی “گریٹ گیم” کا حصہ بن چکی ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے اور تاریخ بھی یہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح یہ تحریک خود کو مزید منظم کرے گی اور اپنی سرزمینوں کو دوبارہ قبضے میں لے گی، کیونکہ اس تحریک کا مقصد واضح ہے۔ پاکستان اور چین، کیونکہ پاکستان بلوچ زمین پر قابض ہے اور چین سامراجی شکل میں موجود ہے، اور چین ویسٹ کے لیے امریکہ کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن رہا ہے۔ تو یہاں بلوچ تحریک کو چاہیے کہ خود کو مزید منظم کرے اور جارحانہ رنگ میں سامنے آئے، تاکہ وقت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کس کی جنگ جائز ہے اور کس کی ناجائز، بلوچ قومی تحریک کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج قابض ریاست کی طاقت کے خلاف کھڑے ہو کر اسے شکست دینا ہے، دنیا وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے میں دیر نہیں کرے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔