استاد میر احمد بلوچ: بلوچ قومی مزاحمت کی گرجتی للکار – مشکاف میر

170

استاد میر احمد بلوچ: بلوچ قومی مزاحمت کی گرجتی للکار

تحریر: مشکاف میر

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تاریخ کو دیکھا جائے تو گزشتہ کئی صدیوں سے بلوچ عوام قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت کرتے آرہے ہیں۔ شدید مظالم کا شکار، بنیادی سہولیات سے محروم، وساہل تک عدم دسترس، ہر طرح کی نسل کشی کا شکار، مگر پھر بھی ہر مشکل دور میں ڈگمگاتے ہوئے بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے۔ خواہ وہ پہلے انگریز کے خلاف کی گئی مزاحمت ہوں یا پچھلے 75 سالوں سے انگریزوں کے ناجائز اولادوں کے خلاف جاری جدوجہد ہوں۔ قابض قوتوں کے سامنے بلوچ قوم نے کبھی اپنا سر نیچھے نہیں کیا، نہ ہی اپنی جدوجہد سے دستبردار ہوئے۔

بلوچ قومی تحریک کو وقت کے ساتھ بہت اُتار چڑھاو دیکھنے کو ملے، سخت اور کٹھِن حالات مگر اپنے مشکل سے مشکل ادوار میں بھی یہ تحریک پوری طرح کبھی ختم نہیں ہوئی۔ کسی نہ کسی طرح، کسی نہ کسی شکل میں بلوچ قوم نے ظالم اور قابض طاقتوں کے خلاف اپنی بقاء کی جنگ جاری رکھی۔ ہر کٹھِن دور میں دھرتی کے کسی دلیر فرزند نے قربانی دے کر اس تحریک کو زندہ رکھا۔ ہر طرح کی قربانی سے اس قوم نے گریز نہیں کیا۔ جنگ کے میدان سے لے کر سیاست کے میدان تک، جس کی دلیری اور ثبوت تاریخ کے پاس ہیں۔ کسی ماں نے ہنستے ہوئے اپنا بیٹا قربان کیا تو کوئی ماں اپنے اولاد چھوڑ کر قربان ہوئی، کوئی باپ بیٹوں سمیٹ کر قربان ہوا تو کسی نے سنت ابراہیمی پھر سے دہرائی مگر اس بار اسماعیل نے شوق سے قربانی دی۔

بلوچ قوم نے زندگی کے ہر رنگ، خوشی، رشتے اور خواہشات ایک طرف چھوڑ کر اپنے خون سے اس تحریک کی جان میں روح پھونک دی۔ دشمن کے روبرو وطن کے آبرو اور سلامتی کے لیے اپنے آپ کو بم سے اُڑا کر ٹکڑے ٹکڑے کیے، آخری گولی کے فلسفے سے لے کر زندانوں میں ریکر دردناک اذیت کاٹنے تک سے گریز نہیں کیا۔ لیکن اس قومی جہدوجہد کے دیئے بُجھنے نہیں دیئے۔ شہزادہ صفت فرزندانِ وطن نے اپنے لہو سے جہد کو زندہ رکھا۔ عورت یا مرد، بلوچ قومی تحریک میں قربانیوں کو دیکھا جائے تو سیاست سے لے کر میدانِ جنگ تک دونوں اجناس کی قربانیوں کی مثال دنیا میں رہنے والے کسی اور قوم میں نہیں ملتی۔ ان سب قربانیوں کی داستان قوم اور دنیا تک پہنچانے میں موسیقی کا بہت بڑا کردار رہا۔

اپنے آپ کو وطن کی حفاظت کے لیے وقف کرنے والے ہر ایک جہدکار کی نظریاتی اور ذہنی تربیت کی ابتدا سے لے کر اختتام تک ایک گلوکار کی آواز کا بہت بڑا کردار رہا، جس کا ہر نغمہ، ہر گیت وطن کے نام پر اور گلزمین کے ان شہداء کے نام ہوتے ہیں جنہوں نے اس سرزمین کے خاطر اپنی خواہش قربان کر دی۔ اس دھرتی کے کچھ ایسے بھی فرزند ابھی تک سلامت ہیں جنہوں نے اپنے ہزاروں سنگت، ہمسفر، عزیز اور غمخوار رخصت کیے۔ وطن سے مخلصی اتنی رہی کہ ہر وقت جان کا نظرانہ پیش کرنے کے لیے تیار بیٹھے رہے لیکن اس تحریک کو ان کی مزید ضرورت پیش آتی رہی اور وہ آج تک اس تحریک کو زندہ اور جاری و ساری رکھنے کے لیے ہر درد سہتے رہے۔

ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائی، ہر رشتے کا درد سہ کر سنگت اور ہمسفروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے جاتے دیکھ کر اُن سے دوری کا درد برداشت کرتے رہے، مگر سرزمین سے وفاداری کے خاطر خود کو کسی بھی حالت میں زندہ رکھنا چاہا کیونکہ ان کے نہ ہونے سے تحریک کو شدید نقصان ہوسکتا ہے۔ وہ ناظرک اور مشکل حالات میں بھی قوم کے حوصلوں کو گرنے نہیں دیتے بلکہ مزید حوصلہ اور ہمت کرنے کا درس دیتے ہیں۔ مدتوں سے اس قوم کی اُمید بن کر اُس کو بُجھنے نہیں دیتے، اُن آنکھوں کے اندر اُس مقدس دن کے منتظر بیٹھے ہیں کہ کب اُن کے پیاروں کی قربانیوں کا صلہ ملے گا، کب ماں کے کلیجوں کو ٹھنڈک ملے گی جنہوں نے وطنِ عزیز کے خاطر اپنے لختِ جگر قربان کیے۔ جو شخصیات تاریخ کے سینے پر ناقابلِ فراموش نقوش چھوڑ چکے ہیں مگر ابھی تک قوم کو جھگڑانے کے غرض سے زندہ ہیں۔ انہی دھرتی کے فرزندوں میں سے ایک نمایاں کردار استاد میر احمد بلوچ کے ہیں۔ ایک ایسا انقلابی جہدکار، گلوکار جس کی آواز صرف موسیقی نہیں بلکہ مزاحمت کی گونج، بغاوت کی پُکار، اور آزادی کی صدا بن چکی ہے۔

استاد میر احمد بلوچ 1973 میں بلوچستان کے شہر ضلع مستونگ میں اسی سال پیدا ہوئے جب بھٹو نے بلوچ عوام پر ظلم کی انتہا کی تھی۔ اور اسی دوران بلوچ سرخیل رہنماؤں نواب خیربخش مری، سردار عطاءاللہ مینگل، میر گل خان نصیر جیسے غمخواروں کو حیدرآباد سازش کیس جیسے جھوٹے مقدمات میں قید کر لیا گیا تھا۔ اسی سال بھٹو سامراج اور بلوچستان میں فوج کشی کے خلاف اس خطے میں ایک نئے انقلابی مزاحمت کا آغاز ہوا اور اسی سال ہمارے مقدس سرزمین پر انقلاب کی امید لے کر میر احمد بلوچ نامی ایک فرزند کا جنم ہوا، ایک عظیم سپائی، جنہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مستونگ سے ہی حاصل کی اور کم عمری ہی میں بلوچ مزاحمتی طلبہ تنظیم بی ایس او سے وابستہ ہو گئے۔ علم و شعور کی جدوجہد کا آغاز سیاسی مزاحمت سے کیا۔ اس دوران ان کی سیاسی پرورش بی ایس او کے سابقہ چیئرمین اور بی این ایم کے بانی، بلوچ قوم کے عظیم رہنما شہید غلام محمد بلوچ جیسے مخلص شخصیت نے کی۔ ان کے فکری و فنی اساتذہ میں استاد کبیر، استاد پائند خان، استاد وفا، استاد ارباب خان اور استاد ملک یوسف کرد کولپوری جیسے بلند کردار شخصیات شامل ہیں جنہوں نے انہیں صرف ساز و آواز ہی نہیں بلکہ مزاحمت اور بیداری، وطن سے محبت اور وفا کا ہنر بھی سکھایا۔

بچپن سے ہی ان کی آواز میں منفرد جادو تھا، لیکن جب 1983 میں انہوں نے اپنی آواز سے سامراج کو للکارنے، قوم کو ظلم کے خلاف کھڑا کرنے اور اپنی سرزمین کو قابض قوتوں سے آزادی دلانے کا فیصلہ لیا اور اپنی موسیقی کے فن سے مزاحمت کا آغاز کیا تو انقلاب کے متوالوں کی کانوں میں ان کی آواز اذان کی طرح گونجنے لگی۔ استاد میر احمد تب سے ہی ریاست کے لیے ایک ڈراونا خواب بن چکے تھے۔ ریاست نے متعدد بار ان کو جان سے مارنے یا جبری طور پر لاپتا کرنے کی کوشش کی۔ نواب خیر بخش مری کے جلاوطنی سے واپس آنے کے بعد تو ریاست کو میر احمد بلوچ کی آواز کانٹے کی طرح چبھنے لگی اور جب بلوچستان میں قابض ریاست کے خلاف مسلح تنظیمیں حکمت عملی کے ساتھ بننے لگیں تو ریاست کے لیے میر احمد بلوچ کی آواز خاموش کروانا لازم ہوگیا کیونکہ میر احمد بلوچ کی آواز میں ہی ایک حقیقت تھی، تو ریاست انہیں خاموش کروانے کے پیچھے دیوانہ وار لگی رہی۔

اس دوران بعض مزاحمتی فنکاروں کو مار دیا گیا اور بعض کو جبری طور پر لاپتا کردیا گیا۔ بعض نے مزاحمتی موسیقی سے کنارہ کشی اختیار کی مگر میر احمد بلوچ ایک چھٹان کی طرح اپنی نظریات پر کھڑے رہے اور 2000 کی دہائی کے بعد وہ جلاوطن رہے، اس وقت سے آج تک وہ تحریک کے ساتھ رہے۔ اور وہ اب تک بیس ہزار سے زائد انقلابی گیت گا چکے ہیں جن میں براہوئی اور بلوچی زبانوں میں گائے گئے نغمے شامل ہیں۔

بقول شہید سنگت ثناء بلوچ: “میر احمد بلوچ کے ہزاروں مزاحمتی گیت کٹھن حالات کی وجہ سے ایلبم نہیں بن سکے، اسی وجہ سے سامنے نہیں آ سکے۔” اس دورانیہ میں انہیں منتشر کرنے کے لیے ان کے خاندان کو کافی اذیت دی گئی اور ان کے بیٹے کو جبری لاپتا کیا گیا۔ بعد میں زندان سے ان پر تشدد کرنے کی ویڈیو منظر عام پر لا کر انہیں ڈرانے کی کوشش کی گئی۔ کافی سالوں تک ان کا فرزند جبری گمشدگی کا شکار رہا۔ آخر میں بیماری کی حالت میں انہیں چھوڑا گیا۔ لیکن استاد میر احمد بلوچ کبھی بھی اپنے موقف اور نظریہ سے ہٹتے نہیں رہے بلکہ مزید تیزی کے ساتھ مسلسل ان کے مزاحمتی گیت آتے رہے۔ اور آج تک اپنے نظریہ اور موقف پر عمل پیرا ہیں۔ اس دوران 2008 سے لے کر 2017 تک تحریک کافی اونچے، نیچے، سخت اور کٹھن دور سے گزری۔ ان ادوار میں تحریک کو زندہ رکھنے والوں میں سے ایک میر احمد بلوچ تھے جنہوں نے اپنی مزاحمتی موسیقی سے سخت سے سخت حالات میں بھی جہدکاروں کے دلوں کے آگ کو بجھنے نہیں دیا۔ دورانِ جلاوطنی بھی ان کو جان سے مارنے کی کافی کوششیں کی گئیں مگر وہ تحریک کے خاطر اپنے ساتھ قوم کی اُمیدوں اور حوصلوں کو بھی زندہ رکھے رہے۔

پچھلے چار برسوں میں وہ 600 سے زائد نئے گیت ریکارڈ کر چکے ہیں جن میں 2024 میں ریلیز ہونے والے 124 گیت اور 2025 میں اس سے بھی زیادہ تیزی سے خوبصورت نغمے گاتے رہے ہیں۔ ان کے گانوں کی اکثریت وطن کے شہداء اور مزاحمت کاروں کے جہدوجہد کی کہانیوں کے نام یا زندانوں میں سختیاں جھیلنے والے وطن زادوں کے نام پر ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا: “میری کوشش ہوتی ہے کہ میں زندہ انسانوں کی تعریف میں گیت نہ گاؤں کیونکہ زندہ انسان کبھی بھی بدل سکتے ہیں۔”

گزشتہ 16 برسوں سے استاد میر احمد بلوچ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، ہر بڑھتے دن کے ساتھ وہ زیادہ پختگی، وسعت اور آگاہی کے ساتھ اپنی موسیقی کے فن کو بلوچ قوم کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنی آواز کے ذریعے قوم کو بیدار کرنے کے ساتھ قابض کو للکارتے ہیں اور عالمی طاقتوں کی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور بلوچستان کی صدائے احتجاج کو سرحدوں سے پار پہنچانے کی کوشش میں رہے ہیں۔

پاکستانی ریاست اور اس کے عسکری ادارے میر احمد بلوچ کو اپنے لیے محض ایک گلوکار نہیں بلکہ ایک “ایٹم بم” تصور کرتے ہیں۔ ان کے گانوں کا اثر قوم پر اتنا گہرا اور وسیع ہوتا ہے کہ ادارے دن رات ان کے گیت اپلوڈ کرنے والے یوٹیوب چینلز، فیس بک پیجز، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک تک اکاؤنٹس کو بلاک کرتے رہتے ہیں۔ ان کے نغموں کو روکنے کے لیے سائبر ٹیمیں بنائی گئی ہیں تاکہ ان پر سٹرائیک لگائی جائے۔ اور دورا چیکنگ میں، جس نوجوان کے فون میں ان کے گیت یا واٹس ایپ پر ان سے متعلق کچھ نظر آئے تو وہ جبری گمشدگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ میر احمد بلوچ ایک ایسے گلوکار ہیں جن کے ساز کی آواز سے ریاست گولیوں سے زیادہ ڈرتی ہے۔

ان کے نغمے صرف سیاسی جلسوں میں یا احتجاج میں نہیں بلکہ بلوچستان کے ہر دیہات، ہر قصبے تک اور شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی ضرور سُنے جاتے ہیں۔ ان کی موسیقی ایک اجتماعی شعور کی طرح ہے، ایسا شعور جو صدیوں کی غلامی کو ٹکرا کر آزادی کی جانب قدم بڑھاتا ہے۔

استاد میر احمد بلوچ بہت سے شاعروں کی لکھی ہوئی شاعری سامنے لاتے ہیں، مگر زیادہ تر عملی شاعروں کے نام مرید بلوچ، ابصار بلوچ، عیسیٰ نادان بلوچ، زید زیدی بلوچ، کماش بشیر زیب بلوچ، لیاقت سنی بلوچ، مشمار بلوچ، خواجہ مزمل بلوچ، غمخوار حیات بلوچ، فتح شاد بلوچ، حافظ وقاص بلوچ، کوہ دل بلوچ اور انور بلسم بلوچ کی لکھی گئی شاعریاں اپنی خوبصورت اور اثرانداز اور مقبول آواز سے عوام تک پہنچاتے ہیں۔ خود عملی اس جنگ کا حصہ ہیں۔ یہ وہ قلمی مجاہد ہیں جن کے لفظوں اور نغموں سے ہر شہید کی شہادت کی کہانی قوم تک پہنچتی ہے۔ استاد میر احمد خلقی شاعروں کے بھی وطن کے نام ہر اور شہیدوں کو سہرانے والے خوبصورت الفاظ قوم کے سامنے لاتے ہیں۔

استاد میر احمد بلوچ اس تحریک کی شان ہیں۔ ایک گلوکار نہیں، بلکہ بلوچ قومی مزاحمت کا استعارہ ہیں۔ ان کی آواز میں ایک ایسی سچائی اور حقیقت ہے جس سے کوئی نہ چھپ سکتا ہے، نہ ان کے اشعار کا جواب دشمن کے پاس ہے، جو جبر کی دیواریں ہلا دیتی ہے۔ آج بلوچ نوجوان نسل کو شعور دلانے اور ظلم کے خلاف کھڑا کرنے میں میر احمد بلوچ کا سب سے بڑا کردار ہے۔ دعا ہے کہ خدا انہیں ہمیشہ سلامت رکھے۔ آمین۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔