استاد اسلم، لمہ یاسمین اور ریحان حوصلے و قربانی کی علامت
تحریر: لکمیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شہید جنرل استاد اسلم بلوچ، لمہ یاسمین اور ان کے بیٹے شہید فدائی ریحان اسلم بلوچ کی قربانی کی داستان بلوچستان کی تاریخ میں ایک ایسی مثال ہے جو نہ صرف حوصلے اور عزم کی علامت ہے بلکہ یہ ثابت کرتی ہے کہ جب ایک بلوچ خاندان اپنی سرزمین اپنی شناخت اور اپنی قوم کی آزادی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا اثر آنے والی نسلوں تک گہرا پڑتا ہے شہید استاد اسلم کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنی قوم کی آزادی کے لیے وقف کر دیا۔ وہ جانتے تھے کہ غلامی کے اندھیروں میں جکڑی ہوئی قوم کو روشنی تک پہنچانے کے لیے صرف نعرے اور دعوے کافی نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کٹھن راستے اپنانے پڑتے ہیں اور ذاتی زندگی کو قومی مقصد کے لیے پیچھے چھوڑنا پڑتا ہے۔
شہید جنرل استاد اسلم کی سوچ صرف ایک عام مزاحمت کار کی سوچ نہیں تھی، بلکہ وہ ایک استاد کی طرح قوم کو تعلیم اور شعور دینے پر یقین رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ایک تحریک کی بنیاد صرف جذبات پر ہو اور شعور و حکمت سے خالی ہو تو وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے نوجوانوں میں آزادی کا جذبہ بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی سکھایا کہ دشمن کی طاقت اور اپنی کمزوری دونوں کو پہچاننا ضروری ہے۔ شہید جنرل استاد اسلم کی قیادت میں ایک نئی لہر پیدا ہوئی جس نے پرانی ناکامیوں سے سبق سیکھ کر زیادہ منظم اور پرعزم راستہ اختیار کیا۔
شہید جنرل استاد اسلم کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی جدوجہد کو صرف نعرہ بازی تک محدود نہیں رکھا بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے اس تحریک کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ جنگ طویل ہوگی اس میں جانیں جائیں گی، گھر اجڑیں گے اور قربانیاں دینی پڑیں گی، لیکن اگر یہ سب کچھ ایک مقصد کے لیے ہو تو یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جاتیں وہ اپنی زندگی میں ہی اس بات کی مثال قائم کر چکے تھے کہ ایک فرد کی محبت اپنی سرزمین کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے، اور یہ جذبہ انہوں نے اپنے بیٹے ریحان میں بھی منتقل کیا۔
شہید فدائی ریحان جان نے اپنے والد کی سوچ حوصلے اور عزم کو نہ صرف سمجھا بلکہ اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا بچپن سے ہی انہوں نے اپنے والد کو اپنی قوم کے لیے دن رات جدوجہد کرتے دیکھا وہ جانتے تھے کہ یہ راستہ آسان نہیں لیکن ان کے دل پہ یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ اگر کسی کو اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے قربانی دینی پڑے تو وہ پیچھے نہیں ہٹتا۔شہید ریحان جان نے جب اس سفر کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو یہ ایک عام فیصلہ نہیں تھا بلکہ اپنی زندگی کو ایک مقصد کے لیے وقف کرنے کا عہد تھا۔
وقت آیا جب شہید ریحان جان کو ایک ایسے مشن کا حصہ بننا تھا جو ان کی زندگی کا آخری مشن ثابت ہوا۔ روانگی سے پہلے انہوں نے اپنے والد کو گلے لگایا، اور اپنی ماں سے کہا کہ دل چھوٹا نہ کریں یہ الفاظ صرف ایک بیٹے کے نہیں تھے بلکہ ایک ایسے شخص کے تھے جو جانتا تھا کہ اس کی واپسی ممکن نہیں، لیکن وہ اپنے قدم پیچھے ہٹانے کے لیے تیار نہیں اس لمحے استاد اسلم اور لحمہ یاسمین کے دل میں فخر اور دکھ دونوں موجود تھے۔ ایک طرف بیٹے کو کھونے کا غم تھا، اور دوسری طرف یہ اطمینان کہ ان کا بیٹا ایک بڑے مقصد کے لیے جا رہا ہے۔
لمہ یاسمین ایک باہمت اور مضبوط دل رکھنے والی ماں ہیں وہ کہتی ہیں کہ اگر تاریخ مجھے دوبارہ اُس لمحے میں لے جائے جب میرا بیٹا قربانی دینے کے لیے مجھ سے رخصت ہو رہا تھا، تو میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہچکچاؤں گی یہ الفاظ ایک ماں کے عظیم حوصلے اور اپنی سرزمین سے بے مثال محبت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ذاتی دکھ کے باوجود قوم کے لیے قربانی دینے کا جذبہ ہر کسی میں نہیں ہوتا، اور یہی جذبہ یاسمین کو دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔
شہید ریحان جان کی قربانی نے نہ صرف بلوچ مسلح مزاحمتی تحریک میں ایک نیا جوش پیدا کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ قربانی دینے کے لیے عمر یا تجربہ سب کچھ نہیں ہوتا بلکہ اصل چیز ایمان، جذبہ اور مقصد سے وابستگی ہے۔ ان کی آخری ویڈیو اور ان کے الفاظ نے بہت سے لوگوں کے دلوں کو جھنجھوڑ دیا۔ یہ یاد دہانی تھی کہ جب ایک فرد اپنی ذات سے بڑھ کر سوچتا ہے تو وہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔
شہید جنرل استاد اسلم کے لیے یہ قربانی ایک باپ کے دل کو توڑ دینے والی تھی لیکن ایک رہنما کے طور پر یہ اس بات کی تصدیق بھی تھی کہ ان کی تربیت اور جدوجہد نے ایک ایسا بیٹا پیدا کیا جو اپنی قوم کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار تھا ایک ماں کے لیے یہ لمحہ ناقابل بیان تھا لیکن لمہ یاسمین جیسی ماں نے اس قربانی کو تسلیم کیا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کا بیٹا غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے جا رہا ہے۔
شہید ریحان جان کا مشن مکمل ہوا لیکن اس کے بعد اس کی یاد بلوچستان کے پہاڑوں وادیوں اور گلیوں میں گونجتی رہی لوگ اس کی قربانی کو صرف ایک حادثہ یا ایک واقعہ نہیں سمجھتے بلکہ ایک علامت کے طور پر یاد کرتے ہے وہ علامت کہ آزادی آسان نہیں ملتی اور اگر کوئی قوم آزاد ہونا چاہتی ہے تو اسے ایسے بیٹے پیدا کرنے پڑتے ہیں جو اپنی جان کو ہتیلی پر رکھ کر نکل پڑیں۔
شہید جنرل استاد اسلم اور شہید فدائی ریحان جان کی قربانیاں صرف ایک خاندان کی کہانی نہیں بلکہ ایک پوری قوم کے لیے سبق ہیں یہ سبق کہ آزادی کے لیے نہ صرف لڑھنا ضروری ہے بلکہ قربان ہونا بھی ضروری ہے یہ قربانیاں یاد دلاتی ہیں کہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹتی نہیں جب تک کوئی انہیں توڑنے کے لیے سب کچھ داؤ پر نہ لگا دے۔
آج بھی جب بلوچستان کے لوگ اپنی آزادی کی بات کرتے ہیں تو شہید استاد اسلم اور شہید ریحان جان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی قربانیاں ایک مشعل کی طرح ہیں جو آنے والی نسلوں کو راستہ دکھاتی ہیں یہ داستان ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی سرزمین اپنی شناخت اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کرنے کو تیار ہیں ان کی قربانی اس بات کا ثبوت ہے کہ سچھی محبت وہ ہے جو ذاتی خوشیوں اور زندگی سے بڑھ کر ایک مقصد کے لیے ہو۔
شہید استاد اسلم کی زندگی اور شہید ریحان جان کی قربانی نے بلوچ مزاحمتی تحریک کو وہ جذبہ دیا جو شاید صرف نعروں سے پیدا نہیں ہو سکتا تھا یہ جذبہ خون اور قربانی سے پرواں چڑھا ہے ان دونوں کی کہانی اس بات کی علامت ہے کہ جب ایک باپ اور بیٹا ایک ہی مقصد کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں تو وہ مقصد کبھی ختم نہیں ہوتا، چاہے وہ لوگ خود اس دنیا میں نہ رہیں
آنے والے وقت میں بھی یہ قربانیاں بلوچستان کی جدوجہد آزادی کا حصہ رہیں گی۔ لوگ ریحان اور استاد اسلم کی داستان سنائیں گی بچے انہیں ہیرو کے طور پر یاد کریں گے اور نوجواں ان سے حوصلہ لیں گے۔ یہ کہانی ہمیشہ زندہ رہے گی کیونکہ یہ صرف ماضی کی حقیقت نہیں بلکہ ایک مسلسل تحریک کا حصہ ہے جو اپنے انجام تک پہنچنے تک جاری رہے گی۔
شہید استاد اسلم لحمہ یاسمین اور شہید ریحان جان کی قربانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ کچھ لوگ اپنی زندگی کے چند سالوں میں اتنا کر جاتے ہیں جو صدیوں یاد رکھا جاتا ہے۔ یہ قربانی ایک چراغ کی مانند ہے جو آنے والے ہر طوفان میں بھی جلتا رہے گا اور آزادی کی تلاش میں نکلنے والوں کا راستہ روشن کرتا رہے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔