‏نظریہ قوموں کا جوہر ہے – مشعال بلوچ

43

‏نظریہ قوموں کا جوہر ہے

‏تحریر: مشعال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏قومیں جسم سے نہیں، نظریے سے پہچانی جاتی ہیں۔ قوم کا جسم زمین ہے، زبان ہے، نسل ہے، لیکن اس کی روح نظریہ ہے۔ وہ روح جو صدیوں کا دکھ، صداقت کا اصول، اور آنے والے زمانوں کی امید بن کر سانس لیتی ہے۔ نظریہ محض کوئی سیاسی نعرہ نہیں، نہ ہی ایک وقتی منشور ہے۔ یہ انسان کے شعور، اس کی تقدیر، اور اس کی اجتماعی خودی کا مظہر ہوتا ہے۔ جب کسی قوم کا نظریہ گم ہو جائے، یا جب وہ نظریے کو سودے بازی کے بازار میں لے جائے، تو اس کی شناخت ایک بےجان خاک میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ بلوچ قوم بھی اسی سوال کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اُس کے سامنے آزادی کا ایک روشن، مگر پرخار نظریاتی راستہ ہے اور دوسری طرف اُن داخلی زہریلے عناصر کا جال، جو قوم کے مقدس ترین خوابوں کو سیاست کی گندھی ہوئی منڈی میں فروخت کر رہے ہیں۔

‏تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر قومی تحریک کے مقدس ترین دشمن ہمیشہ وہ نہیں ہوتے جو باہر سے آتے ہیں۔ سب سے خطرناک وہ ہوتے ہیں جو اندر سے نظریے کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں، جو قوم کے جذبے، قربانی، اور خوابوں کو ایسے الفاظ میں سمیٹتے ہیں جن کا مقصد ان کے مفہوم کو مسخ کرنا ہوتا ہے۔ وہ قومی بیانیے کو صوبائی منشور میں بدل دیتے ہیں، وہ آزادی کی بات کو روزگار، اسکیم اور وزارت کی سطح تک گرا دیتے ہیں۔ وہ خود کو بلوچ قوم پرست کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ بلوچ شعور کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

‏بلوچستان نیشنل پارٹی (BNP)، نیشنل پارٹی، اور ان جیسے دیگر نام نہاد قوم پرست عناصر نہ تو قوم کے دکھ کو سمجھتے ہیں، نہ اس کے نظریے کو۔ ان کے لیے بلوچ قوم ایک پرچم نہیں بلکہ ایک پلیٹ فارم ہے، ایک سیڑھی ہے، ایک بہانہ ہے۔ وہ جب “بلوچ حقوق” کی بات کرتے ہیں، تو درحقیقت وہ اپنی پارٹی کی حکمت عملی، اپنے خاندان کے مفادات، یا اپنے وجودی خوف کی بات کرتے ہیں۔ وہ بلوچ کے دکھ کو اتنا ہی مانتے ہیں جتنا وہ اپنے عہدے کے لیے سہولت بخش ہو۔ اگر بلوچ تحریک ریاست کے لیے مسئلہ بن جائے، تو یہی پارلیمانی قوم پرست بلوچ کے دکھ کو ریاستی “مسئلہ” کہنے لگتے ہیں۔

‏ایسے مفکرین، جو مفادات کے تابع ہوں، کبھی نظریاتی تحریکوں کو نہ تو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی سنبھال سکتے ہیں۔ تاریخ کے ہر مقام پر نظریہ اُنہی کے ہاتھوں ذبح ہوا ہے جو شعور کے لباس میں خوف پہنتے تھے۔ جیسا کہ حنا آرنٹ کہتی ہیں: ‏”سب سے بڑا ظلم وہ ہوتا ہے جب انسان ظلم کو اصول بنا لے اور اسے ‘مفاہمت’ کا نام دیں۔”

بی این پی اور نیشنل پارٹی جیسے گروہ یہی کرتے آئے ہیں۔ وہ بلوچ قومی سوال کو، جو سراپا آزادی کا سوال ہے، ریاستی آئین کی چار دیواری میں مقید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بلوچ نوجوان شہید کی لاش کے سامنے یہ سوال کرے: “صوبائی خودمختاری کب ملے گی؟” نہ کہ یہ کہ “کیا ہم آزاد ہو سکتے ہیں؟”

‏یہ زہر اس لیے زیادہ مہلک ہے کیونکہ یہ دشمن کے ہتھیار سے نہیں بلکہ اپنے دعویٰ کردہ رہنماؤں کی زبان سے نکلتا ہے۔ قوم کے لیے سب سے بڑی گمراہی وہی ہوتی ہے جب دشمن اپنے لباس میں نہیں بلکہ ہمارے لباس میں ظاہر ہو۔ جب غاصب کے اصول ہمارے دلوں میں اتار دیے جائیں، تو پھر قوم کا خاتمہ باہر سے نہیں اندر سے ہوتا ہے۔ ان پارلیمانی جماعتوں نے ہمیشہ بلوچ قوم کے نظریاتی سفر کو مفلوج کرنے کی کوشش کی ہے۔ نہ صرف عملی طور پر، بلکہ فکری طور پر بھی۔

‏یہ پارٹیاں ہمیں صرف جغرافیہ سکھاتی ہیں، تاریخ نہیں۔ یہ ہمیں صرف اختیار کی بات کرتی ہیں، ذمہ داری کی نہیں۔ یہ قوم کو فرد میں توڑتی ہیں، اور فرد کو ووٹ میں سمٹ دیتی ہیں۔ نظریہ انسان کو جوڑتا ہے، مقصد دیتا ہے، مگر یہ گروہ قوم کو ایک خاموش تماشائی بناتے ہیں جو انتخابات کے دن جاگتا ہے اور باقی سال سوتا ہے۔

‏سقراط نے کہا تھا: ‏”بدترین جبر وہ ہے جو تمہارے شعور پر ہوتا ہے، جب تمہیں یہ باور کرا دیا جائے کہ سچ وہی ہے جو تمہیں بتایا جا رہا ہے۔”

‏بلوچ قوم کو یہی جبر ان پارٹیوں نے دیا ہے۔ انھوں نے بلوچ نوجوان کے ذہن میں وہ خوف بٹھا دیا ہے کہ آزادی ناممکن ہے، کہ ریاست کے بغیر کچھ نہیں بچ سکتا، کہ مفاہمت ہی راستہ ہے۔ لیکن یہ سب جھوٹ ہے۔ آزادی ہر قوم کا بنیادی حق ہے، اور بلوچ قوم کی آزادی نہ صرف ممکن ہے بلکہ لازم ہے اگر وہ نظریہ کی حفاظت کرے۔

‏نظریہ محض ایک کتاب یا منشور نہیں ہوتا، بلکہ وہ اجتماعی شعور ہے جو نسل در نسل بہتا ہے۔ بلوچ تحریک کے نظریے میں شہید فدا احمد، غلام محمد بلوچ، بالاچ مری، اور ہزاروں گمنام فرزندوں کا لہو شامل ہے۔ اسے سیاست کی فائلوں میں دفن نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کوئی انتخابی منشور نہیں کہ جب چاہو بدلو، یہ ایک وجودی میثاق ہے ایک فکری پیمان جو بلوچ قوم نے خود سے باندھا ہے۔ اور جو اس پیمان سے غداری کرے، چاہے وہ BNP ہو یا نیشنل پارٹی، سردار ہو یا دانشور، وہ بلوچ قوم کا دشمن ہے۔

‏اب وقت ہے کہ ہم خود احتسابی کریں۔ ہم صرف دشمن کے گولی چلانے پر نہیں، نظریے پر گولی چلانے والوں پر بھی نگاہ رکھیں۔ اگر ہم نے اپنے اندر کے ان خنجر بردار ہاتھوں کو نہ پہچانا، تو ہم کبھی آزاد نہیں ہو سکتے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی صرف جسمانی آزادی نہیں، بلکہ شعور کی آزادی ہے۔ اور شعور اُن لوگوں کے قبضے میں نہیں رہ سکتا جو ریاست کی دی ہوئی زبان بولتے ہیں، لباس پہنتے ہیں، اور اسی کے خواب بیچتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔