‏سال کے پہلے چھ ماہ میں 752 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ سمی دین کی پریس کانفرنس

172

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج اس پریس کانفرنس میں ہم دو موضوعات پر بات کریں گے۔ پہلے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی ششماہی رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس کی تفصیل ہم آپ تک پہنچائیں گے۔ اس کے بعد، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری کے خلاف لواحقین کی جانب سے اسلام آباد میں جاری پرامن احتجاج پر بات کریں گے، جہاں انہیں ریاستی ظلم کا سامنا ہے۔

‏انہوں نے کہا کہ ہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے آج آپ کے سامنے بلوچستان میں انسانی حقوق کی ششماہی رپورٹ (جنوری تا جون 2025) پیش کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹ محض اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں، بلکہ بلوچستان کے باسیوں کی تکلیف، ظلم اور ریاستی جبر کی داستان ہے۔ بلوچستان اس وقت مکمل طور پر جنگل کے قانون کے تحت ہے، جہاں نہ صرف بنیادی انسانی حقوق معطل ہو چکے ہیں، بلکہ آئین، قانون اور انصاف کے تمام ستون بھی مکمل طور پر معطل ہیں اور مسلسل پامال کیے جا رہے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک فکرانگیز دستاویز ہے، جسے متاثرہ خاندانوں، عینی شاہدین، مقامی انسانی حقوق کے اداروں اور شہادتوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔

‏1۔ جبری گمشدگیاں

‏رپورٹ کے مطابق، سال کے پہلے چھ ماہ میں 752 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ان میں سے 181 افراد کو مختصر مدت کے بعد رہا کیا گیا، جبکہ 25 کو دورانِ حراست قتل کر دیا گیا۔ باقی 546 افراد تاحال لاپتہ ہیں اور ان کے اہلِ خانہ کو ان کی حالت یا مقام کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ سب سے زیادہ کیسز مکران ڈویژن سے رپورٹ ہوئے، اور فرنٹیئر کور (FC) زیادہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے میں ملوث پایا گیا۔ جبری گمشدگیوں کی یہ لہر بلوچ سماج کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔

‏2۔ ماورائے عدالت قتل

‏جنوری سے جون 2025 کے دوران 117 ماورائے عدالت قتل رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر کیسز جعلی مقابلوں، “مارو اور پھینک دو” پالیسی، اور زیرِ حراست قتل سے جُڑے ہیں۔ مقتولین میں زیادہ تر نوجوان، طلبہ، اور سیاسی شعور رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ یہ قتل عام نہ صرف بلوچ نسل کشی پالیسی کا حصہ ہے بلکہ اجتماعی سزا کی پالیسی کا بھی حصہ ہے، جس کی لپیٹ میں اس وقت پوری بلوچ قوم ہے۔ بلوچستان میں آئین اور قانون اس قدر معطل ہیں کہ کوئی شنوائی، قانونی چارہ جوئی یا جوابدہی ممکن نہیں رہی۔

‏3۔ ریاستی تشدد

‏جبری گمشدگی کے شکار تقریباً ہر فرد کو دورانِ حراست سخت جسمانی و ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، ماورائے عدالت قتل ہونے والے ہر فرد کی لاش پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے، جو اس امر کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ ریاستی ادارے شہریوں پر غیر انسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ تشدد کا مقصد نہ صرف معلومات حاصل کرنا ہے بلکہ خوف پیدا کرنا اور پورے سماج کو مفلوج رکھنا ہے۔

‏4۔ اجتماعی سزا

‏بلوچستان میں اجتماعی سزا کے واقعات اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں، جہاں نہ صرف افراد بلکہ پورے خاندان اور برادری کو سزا دی جاتی ہے۔ جن لوگوں کے عزیز لاپتہ ہوتے ہیں، انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں، عورتوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور بچوں کو خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔

‏5۔ شہری آزادیوں کی معطلی

‏بلوچستان میں اظہارِ رائے، پرامن احتجاج، اور نقل و حرکت کی آزادی مکمل طور پر معطل ہے۔ BYC جیسے سیاسی و انسانی حقوق کے اداروں کو نہ صرف دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے، بلکہ ان کے رضاکاروں اور قائدین کے خلاف جعلی ایف آئی آر، تھری ایم پی او، اور فورتھ شیڈول جیسے قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست اپنے جبر کو جائز قرار دینے کے لیے آئینی ڈھانچے کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔

‏6۔ قانون بطور ہتھیار

‏2025 میں بلوچستان اسمبلی کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم نے ریاستی اداروں کو مزید غیر مشروط اختیارات دے دیے ہیں۔ اب کسی کو بھی بغیر الزام کے تین ماہ تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس ترمیم میں فوجی افسران کو بھی نظرثانی بورڈز میں شامل کیا گیا ہے، جو انصاف کی غیر جانبداری کے اصول کے منافی ہے۔ یہ قانون اب انسانی حقوق کے محافظوں، صحافیوں، طلبہ اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔
‏⁦‪