‏تعلیم بلوچ قوم کے لیے ضروری ہے، مگر سیاسی شعور اہم ترین اور عظیم تر ہے – مشعال بلوچ

96

‏تعلیم بلوچ قوم کے لیے ضروری ہے، مگر سیاسی شعور اہم ترین اور عظیم تر ہے

‏تحریر: مشعال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏“جامع تعلیم اپنی جگہ اہم ہے، لیکن آج کے وقت میں سیاسی شعور کہیں زیادہ لازمی اور ناگزیر ہے، خصوصاً بلوچ دانشور کے کردار کے تناظر میں”

‏علم، شعور اور تعلیم انسانی تہذیب کے بنیادی ستون رہے ہیں۔ تعلیم انسان کو الفاظ دیتی ہے، خیالات کو ترتیب دیتی ہے، اور دنیا کو دیکھنے کا زاویہ عطا کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر تعلیم یافتہ انسان باشعور بھی ہوتا ہے؟ کیا ہر یونیورسٹی جانے والا فرد معاشرتی و سیاسی شعور رکھتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ تعلیم صرف معلومات دیتی ہے، جبکہ شعور ان معلومات کو پرکھنے، سمجھنے اور عمل میں لانے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔

‏آج کے دور میں، خصوصاً جہاں قومیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہوں، محض یونیورسٹی کی ڈگریاں قوم کو آزادی یا فکری نجات نہیں دلا سکتیں۔ اگر شعور نہ ہو، تو علم غلامی کا آلہ بھی بن سکتا ہے۔

‏بلوچ قوم کی حالت اور سیاسی شعور کی اشد ضرورت

‏بلوچ قوم اس وقت تاریخ کی سب سے ظالمانہ نوآبادیاتی جکڑ بندی کا شکار ہے۔ ایک ریاست جو فوج، مذہب، تعلیم، میڈیا، عدلیہ، حتیٰ کہ خود تعلیمی اداروں کو ہتھیار بنا کر بلوچ وجود کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں سب سے اہم چیز جو قوم کو جمود سے نکال سکتی ہے، وہ ہے سیاسی شعور۔

‏یہ شعور صرف نعرے بازی یا جزباتی ردعمل نہیں بلکہ حقیقت پسندی، تاریخ فہمی، عالمی سیاست کی گہرائی اور خوداحتسابی کا مرکب ہوتا ہے۔ یہ شعور جانتا ہے کہ دشمن کہاں ہے، طاقت کہاں ہے، اور ہمیں کیا کرنا ہے۔ اگر ہم صرف تعلیمی اداروں میں ڈگریاں لے کر خوش ہوں اور دنیا کو نہ سمجھیں، تو ہم سب سے بڑی بھول کا شکار ہیں۔

‏بلوچ دانشور: رہنمائی یا گمراہی؟

‏دانشور کا کام محض لکھنا، بولنا یا تنقید کرنا نہیں ہوتا، بلکہ قوم کو فکری سمت دینا ہوتا ہے۔ بلوچ دانشور آج ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اس کی ہر بات، ہر تجزیہ، اور ہر خاموشی قوم کی تقدیر پر اثر ڈال سکتی ہے۔ ایک غلط بیان، ایک غلط تجزیہ، ایک جذباتی یا سطحی موقف قوم کو ایسی راہ پر ڈال سکتا ہے جس کا انجام ٹوٹ پھوٹ، داخلی خلفشار، یا ریاستی ایجنڈے کی تقویت کی صورت میں ہو۔

‏یہاں ایک فکری نکتہ انتہائی اہم ہے: سیاست، معاشرت اور تاریخ کبھی بھی ریاضیاتی فارمولوں سے نہیں چلتی۔ یہ پیچیدہ انسانی عوامل، طاقت، مفادات اور جذبات کا کھیل ہے۔ بلوچ دانشور کو ان عوامل کو سمجھ کر، جذبات سے ماورا ہو کر، سائنسی اور سیکولر بنیادوں پر قوم کو تجزیہ دینا چاہیے۔ وہ نہ شیعہ، سنی، سردار، مزدور، استاد، یا سیاسی گروہ کا نمائندہ ہو، بلکہ صرف سچ کا نمائندہ ہو۔

‏بلوچستان میں تعلیمی ادارے، جو بظاہر علم و شعور کا منبع ہونے چاہییں، درحقیقت ریاستی تسلط کے مراکز بن چکے ہیں۔ وہاں بلوچ طالبعلموں کو محض نصابی غلامی سکھائی جاتی ہے، نہ کہ اپنی تاریخ، جغرافیہ یا قومی شعور۔ اس کے باوجود بلوچ نوجوانوں نے سیاسی تحریک، نظریاتی مزاحمت اور فکری بیداری کے جو چراغ جلائے ہیں، وہ غیرمعمولی ہیں۔

‏مگر صرف طالبعلموں سے امید رکھنا کافی نہیں۔ بلوچ اساتذہ، مفکرین، شاعروں، ادیبوں، محققین، اور تجزیہ نگاروں کو چاہیے کہ وہ ریاستی بیانیے کی غلامی سے نکل کر قومی بیانیہ تعمیر کریں، ایسا بیانیہ جو جذبات کی بجائے اصول، انصاف اور حقیقت پر مبنی ہو۔

‏کسی بھی تحریک میں جذبات لازم ہیں، مگر جب تجزیہ جذبات سے آلودہ ہو، تو سچ مفقود ہو جاتا ہے۔ آج بلوچ قوم کی بقاء کا دار و مدار سچ پر ہے۔ ہمیں اپنے آپ پر بھی تنقید کرنی ہے، اپنی کوتاہیوں کو ماننا ہے، اور اپنے فیصلوں کو سائنسی، تاریخی، اور منطقی بنیادوں پر پرکھنا ہے۔

‏مثلاً اگر کسی گروہ نے قربانی دی، تو ہمیں اس کی قدر کرنی ہے، مگر اگر وہی گروہ غلطی کرے تو اسے محبت کے پردے میں چھپانا قوم سے خیانت ہو گی۔ دانشور کی وفاداری کسی گروہ یا فرد سے نہیں، بلکہ سچائی اور انصاف سے ہونی چاہیے۔

‏فکری رہنماؤں کے لیے اصولی راستہ

‏سائنس اور منطق پر مبنی تجزیہ کریں۔ ‏تاریخی تسلسل اور عالمی سیاست کو مدنظر رکھیں۔ ‏قوم کی وحدت کو ہر حال میں اولیت دیں۔ ‏ریاستی پروپیگنڈے سے ہوشیار رہیں۔ ‏کسی بھی جذباتی ردعمل سے اجتناب کریں۔ ‏ذاتی تعلقات کو رائے پر اثر انداز نہ کریں۔

‏فلسطینی دانشور اگر 1970ء کی دہائی میں یاسر عرفات کو آسمانی شخصیت بنا کر تنقید سے ماورا سمجھتے، تو آج حماس اور فتح کی خانہ جنگی نہ ہوتی۔ کرد اگر اپنے علاقائی گروہوں کے فکری تضاد کو وقت پر سمجھ لیتے، تو آج ہر ریاست میں ان کا بٹوارہ نہ ہوتا۔
‏بلوچ قوم کو یہ غلطیاں دہرانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ ایک نسل کی بقاء اور آنے والی نسلوں کی شناخت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں ہر فیصلے سے پہلے سو بار سوچنا ہے۔ ہر بیان، ہر تحریر، ہر رائے ایک تلوار ہے جو یا تو دشمن کو زخمی کرے گی یا اپنے آپ کو۔

‏جامع تعلیم زندگی کے دروازے کھولتی ہے، لیکن سیاسی شعور قوموں کو غلامی سے آزاد کرتا ہے۔ بلوچ قوم کو ایسے دانشوروں کی ضرورت ہے جو صرف لکھنے والے نہ ہوں، بلکہ ذمہ دار، آزاد، غیر جانب دار، سچ کے عاشق، اور قوم کے نجات دہندہ ہوں۔
‏اب وقت ہے کہ بلوچ دانشور: ‏اپنی غیر جانب داری کو برقرار رکھے، ‏قومی وحدت کو مقدم سمجھے، ‏ہر جذباتی لہر میں بھی سچ کو ترجیح دے، ‏اور خود کو نہ تو نعرہ باز بنائے، نہ تماشائی، بلکہ قوم کی آنکھ، دماغ اور دل بنے

‏“ہمیں سچ بولنے کی ہمت کرنی ہے، چاہے وہ ہماری اپنی صفوں میں کہیں چھپا ہو۔”

‏“قوموں کو علم سے نہیں، شعور سے آزادی ملتی ہے۔”
‏(علی شریعتی)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔