بلوچ نیشنل موومنٹ نے یورپی یونین کی جی ایس پی پلس جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز پلس سے متعلق ایک خصوصی کمیٹی قائم کی ہے جس کا مقصد بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دے کر یورپی یونین کے متعلقہ اداروں کو بروقت اور باقاعدگی سے آگاہ کرنا ہے۔
اس حوالے سے پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ یہ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، ٹارچر سیلز، سیاسی آزادی پر قدغن اور دیگر سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کو دستاویز کر رہی ہے تاکہ یورپی حکام کو ان حقائق تک براہِ راست رسائی حاصل ہو سکے جو عموماً پاکستانی میڈیا اور ریاستی اداروں کی سنسرشپ کی وجہ سے منظرِ عام پر نہیں آتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات میں پاکستان کو معاشی یا سفارتی طور پر تقویت دینا خاص طور پر جی ایس پی پلس جیسی تجارتی مراعات کے ذریعے بلوچ قوم کے خلاف جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے لیے بالواسطہ حمایت کے مترادف ہے۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم یورپی جمہوریت، انسانی اقدار اور بین الاقوامی انصاف پر یقین رکھتے ہیں انہی بنیادوں پر ہم پُرامید ہیں کہ یورپی یونین جس کی بنیاد انسانی حقوق اور انصاف پر ہے ایسے کسی عمل کا حصہ نہیں بنے گی جو ایک مظلوم قوم کی نسل کشی کو تقویت دے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ بلوچ لہو کی قیمت پر پاکستان کو معاشی مراعات دینے کے عمل پر نظرِ ثانی کرے پاکستان ان تمام قوانین کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے جن کی بنیاد پر یورپی یونین کسی بھی ملک کو جی ایس پی پلس اسکیم کا اہل قرار دیتی ہے اس اسکیم کے تحت پاکستان کو سالانہ چھ سے سات ارب یورو کا تجارتی فائدہ حاصل ہوتا ہے جو براہِ راست پاکستانی فوج کو تقویت دینے کا باعث بنتا ہے وہی فوج جو بلوچستان میں ریاستی دہشت گردی، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور اجتماعی قبروں جیسے سنگین جرائم کی مرتکب ہے۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے نشاندہی کی کہ جی ایس پی پلس اسکیم کے تحت پاکستان کو 27 بین الاقوامی بنیادی کنوینشنز، خصوصاً انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیاتی تحفظ، اور گڈ گورننس، کی مکمل پاسداری کرنا لازم ہے ان کنونشنز میں انسانی حقوق بنیادی جزو ہیں لیکن پاکستانی ریاست بلوچستان میں ان اصولوں کی مسلسل اور منظم خلاف ورزی کر رہی ہے گڈ گورننس کی حالت یہ ہے کہ بلوچستان میں پارلیمانی جماعتیں بھی آئی ایس آئی اور فوج کی مداخلت سے نشستیں حاصل کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج اور اس کی انٹیلیجنس ایجنسیاں بلوچ سیاسی کارکنوں، طلبہ، صحافیوں اور عام شہریوں کو غیرقانونی طور پر اٹھا کر تشدد کا نشانہ بناتی ہیں یا ماورائے عدالت قتل کر دیتی ہیں یہ اقدامات بین الاقوامی شہری و سیاسی حقوق کے معاہدے (ICCPR) اور تشدد کے خلاف کنوینشن (CAT) کی کھلی خلاف ورزی ہیں جن کی پابندی جی ایس پی پلس اسکیم کے لیے لازمی ہے بلوچستان میں آزاد صحافت تقریباً ناممکن بنا دی گئی ہے جو بھی صحافی یا کارکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کرتا ہے اسے گرفتار اغوا یا قتل کردیا جاتا ہے۔
آخر میں ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ ہم مسلسل یورپی یونین کے منتخب نمائندوں اور اداروں کو اس سنگین انسانی بحران سے آگاہ کر رہے ہیں اور ان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ریاستِ پاکستان کے ان تمام سول و عسکری عہدیداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اقدامات کریں جو بلوچ نسل کشی میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یورپی یونین انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث اس ریاست کے ساتھ ہر قسم کے سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون پر نظرِ ثانی کرے اور اسے مکمل طور پر ختم کرے۔