ہیروف و بام: سیاہ طوفان اور سحر کا رازِ نہاں
تحریر: ظہور جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کی ہر مزاحمت اپنی ایک زبان تخلیق کرتی ہے۔ الفاظ محض حرفوں کا مجموعہ نہیں ہوتے بلکہ قوموں کے اجتماعی شعور کی تجلی، تاریخ کی صدائے بازگشت اور مستقبل کی تمنا بن کر ابھرتے ہیں۔ بلوچ مزاحمتی تحریک میں “ہیروف” اور “بام” دو ایسے الفاظ ہیں جو اس جدوجہد کے ادبی و فکری اظہار کا نہایت نفیس اور گہرا پہلو ہیں۔ یہ دونوں اصطلاحات فقط لغوی مفہوم نہیں رکھتیں بلکہ ایک مکمل فلسفہ، ایک جہت اور ایک علامت کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔
ہیروف جسے سیاہ طوفان کہا جاتا ہے، ایک ایسا استعارہ ہے جو اندھیری فضا، طوفان، ہیبت اور گرج کا امین ہے۔ ہیروف ظلم و جبر کی اُس گھڑی کو ظاہر کرتا ہے جب فطرت خود شور مچاتی ہے، جب ساکت فضا میں طوفانی ہوا چلتی ہے، جب دشمن کے حواس پر خوف کا خمار طاری ہوتا ہے۔ بلوچ مزاحمت کاروں نے “ہیروف” کو بطور حکمتِ عملی اپنایا، ایسا سیاہ طوفان جو خاموشی کو چیر کر دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ہیروف صرف رات کے اندھیرے میں نہیں اٹھتا، یہ دن کے اجالے میں بھی برپا ہو سکتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ظلم اپنے انتہا کو پہنچتا ہے، اور مزاحمت اس کے جواب میں اپنے شدید ترین اظہار میں داخل ہوتی ہے۔ ظلم کبھی تنہا نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ اندھیرے، خوف اور خاموشی کے ساتھ آتا ہے۔ لیکن بلوچ مزاحمت نے ظلم کو اُس کی ہی زبان میں جواب دیا، جب دشمن نیند یا غرور کی آغوش میں ہو، تب ہیروف اُس کے سکون کو ہمیشہ کے لیے حرام کر دیتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب مزاحمت، خوف کے خلاف خود خوف بن جاتی ہے۔
ہیروف اور بام، سیاہ طوفان اور صبح کی اس گہری پوشیدہ حقیقت کا نام ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتی مگر معنوی طور پر بہت طاقتور ہوتی ہے۔ ہر تہذیب، ہر مزاحمت اور ہر بیداری کے پیچھے کچھ ایسے استعارے ہوتے ہیں جو اپنی لغوی شکل سے نکل کر ایک زندہ شعور، ایک فکری قوت اور ایک اجتماعی خواب میں ڈھل جاتے ہیں۔ ہیروف اور بام بلوچ قومی شعور کی انہی علامتی اشکال میں سے دو ایسی اصطلاحیں ہیں جو صرف وقت کی حرکیات کو نہیں بلکہ انسانی شعور کے ارتقائی سفر کو بھی بیان کرتی ہیں۔
ہیروف اس لمحے کا نام ہے جو صرف اندھیر نہیں ہوتا بلکہ مضطرب ہوتا ہے۔ وہ لمحہ جس میں سکوت نہیں بلکہ طوفان کی آہٹ ہوتی ہے۔ جب فضا میں ایک غیر مرئی اضطراب گھل جاتا ہے، جب ظلم سر چڑھ کر بولتا ہے، تب ہیروف سراپا جواب بن کر ابھرتا ہے۔ ہیروف صرف طوفان نہیں، وہ فطرت کی چیخ ہے، انسان کے اندر دبی ہوئی بغاوت کی گونج ہے، اور وہ لمحہ ہے جب خوف خود خوفزدہ ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف بام صرف صبح نہیں، وہ صبح کے امکان کی تصدیق ہے۔ وہ ایک مانوس لیکن نوخیز کیفیت ہے جو اس وقت جنم لیتی ہے جب رات کے سائے تھک جاتے ہیں، جب جدوجہد کی شمع بجھنے کے بجائے اور زیادہ روشن ہو جاتی ہے۔ بام اس لمحے کا نام ہے جب زمین تھرتھراتی نہیں بلکہ مسکراتی ہے۔ جب دلوں میں امید صرف ایک جذباتی کیفیت نہیں رہتی بلکہ عمل کا جواز بن جاتی ہے۔ بام صرف روشنی نہیں، شعور کا ظہور ہے۔
یہ دونوں اصطلاحات ہیروف اور بام ظاہری معنوں سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ یہ اب فقط الفاظ نہیں، ایک فکری تسلسل، ایک جدلیاتی کشمکش اور ایک روحانی بیانیہ بن چکی ہیں۔ ان کے اندر بلوچ قومی تاریخ کی گہرائی بھی ہے، اور مستقبل کا خواب بھی۔ ان میں مزاحمت کی شدت بھی ہے اور نجات کی لطافت بھی۔
جیسے فلسفے میں ہر تضاد ایک نئی ترکیب کو جنم دیتا ہے، ویسے ہی ہیروف اور بام بلوچ مزاحمت کے فکری عمل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے بیچ جو فاصلہ ہے وہ فقط وقت کا نہیں، قربانیوں کا، جذبوں کا اور شعور کا فاصلہ ہے۔ اور جب قومیں اس فاصلے کو شعوری طور پر طے کرتی ہیں، تب وہ محض تاریخ نہیں بناتیں، وہ تقدیر رقم کرتی ہیں۔
بام محض صبح کی ہلکی روشنی نہیں بلکہ ایک تصور، ایک امید، اور ایک وعدہ ہے۔ بام کا مفہوم سحر ہے، وہ لمحہ جب شب کی تاریکی اپنی شکست تسلیم کرتی ہے، جب کائنات پر نئی روشنی کا پہلا لمس پڑتا ہے۔ بام ایک امید ہے کہ ظلم جتنا بھی گہرا ہو، جتنا بھی طویل ہو، اس کا انجام سحر ہے۔ بلوچستان کی زمین، جس پر ظلم کی طویل رات چھائی ہوئی ہے، اب بام کی روشنی سے متحرک ہو رہی ہے۔ بام بلوچ قومی شعور کی بیداری ہے۔ وہ لمحہ ہے جب خواب، امید، اور جدوجہد ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو کر مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں۔ بام ایک فلسفیانہ یقین ہے۔
اگر ہیروف وہ اضطراب ہے جو ظلم پر نازل ہوتا ہے تو بام وہ سکون ہے جو قوم کے دل میں اترتا ہے۔ یہ دونوں اصطلاحات کسی لغت سے نہیں آئیں، یہ زمینی حقیقتوں سے جنمی ہیں، یہ قوم کی اجتماعی یادداشت، دکھ اور مزاحمت کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہیں۔
یہ جدلیاتی رشتہ ہیگل کے جدلیات (Dialectics) کی یاد دلاتا ہے:
-
Thesis: ظلم و جبر (اندھیری رات)
-
Antithesis: ہیروف (مزاحمتی طوفان)
-
Synthesis: بام (امیدِ سحر)
بلوچ مزاحمت اس جدلیاتی عمل کا شعوری حصہ ہے۔ وہ جانتی ہے کہ آزادی کا سورج رات کے پچھلے پہر ہی طلوع ہوتا ہے، جب اندھیرا سب سے گہرا ہو۔ یہی وہ لمحہ ہے جب “بام” جنم لیتی ہے۔
“بام” اور “ہیروف” جیسے الفاظ بلوچ مزاحمت کی جانب سے زبان، تاریخ اور ادب میں ایک نئی توانائی کا اضافہ ہیں۔ یہ استعارات صرف مزاحمتی تحریک کے استعارہ نہیں بلکہ یہ مستقبل کی شعریات، فکریات اور ادبیات کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ جیسے فلسطینی مزاحمت میں “انتفاضہ” نے ایک ادبی مقام حاصل کیا، ویسے ہی “بام” اور “ہیروف” بلوچ ادب کا مرکز بن سکتے ہیں۔
ہر سحر ایک جدوجہد سے جنم لیتی ہے، ہر بام کئی ہیروفوں کی گواہی ہوتی ہے۔ بلوچ مزاحمت کاروں نے یہ پیغام دیا ہے کہ اگرچہ ظلمت کی رات طویل ہے، مگر بام آتی ہے۔ وہ آتی ہے خاموشی سے مگر پُر اثر انداز میں۔
وہ محبت، آزادی اور شناخت کی نوید بن کر ابھرتی ہے۔
سحر کا وعدہ اُنہی کو ہوتا ہے
جو رات کے اندھیروں سے ٹکراتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔