ہم ظلم سہنے سے انکار کرتے ہیں: بلوچ لواحقین مشکلات کے باوجود اسلام آباد میں دھرنے پر موجود

31

بلوچ لواحقین کا سیاسی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج بارہویں روز بھی جاری رہا۔

تفصیلات کے مطابق، اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب جانے والے تمام راستے مسلسل بند ہیں، اور پولیس کی بھاری نفری نے بلوچ مظاہرین کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ تاہم بلوچ لواحقین تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسلام آباد میں گزشتہ 12 دنوں سے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد اور سیاسی مقدمات میں قید بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے اہلِ خانہ سراپا احتجاج ہیں اور انصاف کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔

اس موقع پر نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے دھرنا گاہ کا دورہ کیا اور لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کیا۔

دھرنے کے شرکاء کا کہنا تھا:

“ہم گزشتہ بارہ دنوں سے پاکستانی دارالحکومت میں انصاف، شفافیت اور بنیادی انسانی حقوق کے مطالبے کے ساتھ موجود ہیں، لیکن ہمیں مسلسل ہراسانی، الزامات اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا ہے۔ خفیہ اداروں کے اہلکار صحافیوں اور انتظامیہ کے روپ میں آ کر ہمیں ڈرا دھمکا رہے ہیں۔”

شرکاء نے مزید کہا:

“ریاست نے ہمارے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکیں، ہمارے سہاروں کو لاپتہ کیا، ہماری آوازوں کو دبایا، اور ہمارے وجود پر قبضے کی کوشش کی، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ کو نہ ہرا سکے، نہ خاموش کر سکے۔”

“ہم آج ایک بار پھر یاد دلاتے ہیں: تم پہلے بھی غلطی پر تھے، آج بھی ہو۔ ہم دباؤ سے نہیں ڈرتے، ہم ابھریں گے۔ ہم کریمہ، ماہ رنگ، سمی، سائرہ، شاہ جی، بیبرگ، ماما غفار، بیبو اور گلزادی بنیں گے۔ ہم ظلم سہنے سے انکار کرتے ہیں، جی ہاں، ہم ظلمتوں کے باغی ہیں۔”

واضح رہے کہ بلوچ مظاہرین نے حکومت کے سامنے دو بنیادی مطالبات رکھے ہیں:

  1. بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت پر قائم جھوٹے مقدمات کا خاتمہ اور ان کی فوری رہائی
  2. بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ اور تمام لاپتہ افراد کی بازیابی

آخر میں مظاہرین نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ سے اپیل کی کہ وہ اس سنگین انسانی مسئلے کا نوٹس لیں اور بلوچ مظاہرین کے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔