گوادر: بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج پر بہن تھانے طلب، اسکول سے بھی نام خارج

157

گوادر سے تعلق رکھنے والی رخسانہ دوست کا کہنا ہے کہ انہیں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنے لاپتہ بھائی کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے کی پاداش میں حراساں کیا جارہا ہے۔

رخسانہ دوست جو گوادر کے ایک مقامی اسکول دی اوئیسس اسکول میں بطور معلمہ فرائض انجام دے رہی تھیں کو آج اسکول انتظامیہ کی جانب سے ملازمت سے فارغ کیے جانے کا پیغام موصول ہوا۔

اُن کے بقول انھیں صرف اس لیے اسکول سے نکالا گیا کہ وہ اپنے جبری لاپتہ بھائی عظیم دوست کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔

اس سے قبل رخسانہ کو گوادر پولیس نے تھانے طلب کیا جہاں انہیں پانچ گھنٹے تک حبسِ بے جا میں رکھا گیا، اس دوران ان سے احتجاجی ریلیوں میں شرکت اور مظاہروں کے بارے میں سوالات کیے گئے اور انہیں ہراساں کیا گیا۔

واضح رہے کہ رخسانہ دوست عظیم دوست بلوچ کی ہمشیرہ ہیں جنہیں پاکستانی فورسز نے 3 جولائی 2015 کو گوادر سے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا، وہ گزشتہ کئی سالوں سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے گوادر سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں میں شریکت کرتی رہی ہیں۔

رخسانہ نے اس حوالے سے بتایا کہ میں ذہنی طور پر پہلے سے تیار تھی مجھے معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن مجھے اسکول سے نکال دیا جائے گا کیونکہ اسکول کو بھی دھمکیوں کا سامنا تھا اور آج اسکول انتظامیہ نے مجھے پیغام بھیجا کہ آپ کو اسکول سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

رخسانہ دوست کہتی ہے میں اپنی جدوجہد جاری رکھوں گی اور اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرتی رہوں گی۔

یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں گوادر میں احتجاجی مظاہروں اور جلسوں پر غیر اعلانیہ طور پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جبکہ اس دوران سیاسی کارکنان اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو پولیس کی جانب سے حراساں کیا جارہا ہے۔

گزشتہ ہفتے بلوچ ویمن فورم کی شلی بلوچ اور ان کی ساتھیوں کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ گوادر میں ایک پروگرام میں موجود تھیں، بعد ازاں پولیس نے انہیں مختلف الزامات کے تحت تربت تھانے منتقل کرنے کے بعد رہا کردیا تھا۔

بلوچستان کی سیاسی و سماجی تنظیموں نے ان واقعات کی مذمت کی ہے، جبکہ گوادر میں خواتین کی گرفتاری اور حراسانی کے واقعات پر اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے نامزد خصوصی نمائندہ، میری لاولر نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔