بلوچ یکجہتی کمیٹی تربت سے تعلق رکھنے والے معروف سماجی کارکن اور سول سوسائٹی کیچ کے کنوینر گلزار دوست کی گزشتہ شب گھر پر چھاپے کے ذریعے CTD کے ہاتھوں جبری گرفتاری کی شدید مذمت کرتی ہے۔ آج انہیں عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان پر متعدد جھوٹے اور سیاسی بنیادوں پر گھڑے گئے مقدمات درج کیے گئے، جو کہ ایک واضح پیغام ہے کہ جو بھی بلوچستان میں انصاف، انسانی حقوق اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرے گا، وہ ریاستی انتقام کا نشانہ بنے گا۔
بی وائی سی نے کہا ہے کہ گلزار دوست ایک پرامن اور عوامی آواز ہیں جو طویل عرصے سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ، ماورائے عدالت قتل کے متاثرین، اور ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ ان کی جدوجہد خالصتاً آئینی، سیاسی اور انسانی حقوق کے دائرے میں رہی ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ خاموش تماشائی بننے کے بجائے مظلوموں کے ساتھ کھڑے رہے، اور یہی بات ریاستی اداروں کو برداشت نہیں ہو رہی۔
مزید کہا ہے کہ سی ٹی ڈی کا بلوچستان میں کردار نہ صرف متنازعہ بلکہ بدنام ہے۔ یہ ادارہ اب ایک ہتھیار بن چکا ہے جسے صرف ان لوگوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جو حق گوئی اور مزاحمت کی سیاست کرتے ہیں۔ بغیر کسی قانونی جواز کے گھروں پر چھاپے، لوگوں کو لاپتہ کرنا، اور جھوٹے مقدمات بنا کر انہیں دبانے کی کوششیں، دراصل بلوچ عوام کو خاموش کرنے کا ایک مسلسل سلسلہ ہے۔
انہوں کہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی گلزار دوست کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ بلوچ عوام کی آواز کو جبر، دھمکیوں یا مقدمات سے دبایا نہیں جا سکتا۔ ریاست اگر یہ سمجھتی ہے کہ سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنا کر بلوچستان میں خاموشی قائم کی جا سکتی ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ ہم ہر سطح پر گلزار دوست کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ان کی رہائی تک آواز بلند کرتے رہیں گے۔