کھلا خط بنام ڈپٹی کمشنر پنجگور عبد الکبیر زرکون صاحب – برکت مری

17

کھلا خط بنام ڈپٹی کمشنر پنجگور عبد الکبیر زرکون صاحب

عرض گزارش ہے کہ پنجگور ایک گمنام کیفیت میں سفر کر رہا ہے، کسی کو اپنی منزل کا پتہ نہیں “قتل، لاپتہ، مال و روزگار سے محرومی” سے، یہاں کے غریب متوسط طبقے سیاسی، سماجی، ادارتی کارکردگیوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی ادارہ اپنی آئینی قانونی ٹریک پر نہیں ہے، ہر طرف بیگانگی کا سما پھیلا ہوا ہے، کسی نظر کسی دیوار کی دراڑ سے ذرا بھر امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ یہ الفاظ ضرور میرے قلم سے نبشتہ ہیں لیکن یہ آواز، یہ الفاظ، یہ سوال، یہ درد، یہ الم، یہ غم، یہ پریشانی، یہ مایوسی، یہ لفظوں کے رنگ میں آہ و سسکیاں پنجگور کے ان دس لاکھ سے زائد لوگوں کا ہے جو آپ کے دفتر و دیگر ملک کے بنیادی ستونی اداروں سے مایوس کے گلے شکوے، ناراضگی، دوری کے جذبات ہیں۔ ان شکوہ گلہ ناراض کنندگان میں پنجگور کے جوان، بوڑھے، مرد، خواتین، بچے، معذور، مزدور، محنت کش، کسان، تاجر، اسٹوڈنٹس، ٹیلے ٹالی والے، ریڈی بان حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس ملک کے جمہوری، سرکاری اداروں کے نظام سے مایوس ہوکر ان کا اعتماد ان اداروں سے ختم ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ تمام تر اپنے بنیادی مسائل کی نشاندہی، آواز، رسائی کے ہر فورم کو استعمال کرنے کے بعد وہ مایوس ہو چکے ہیں۔ اس خط میں شارٹ الفاظ جو درد و غم، رنج و الم ہے، وہ الفاظوں میں نہیں ملے ہیں۔ یہ وہی دس لاکھ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اداروں سے کوئی اعتبار نہیں رہا ہے۔ ایک افراتفری، انتشار، نفرت، اختیارات کا طاقت دیکھ کر اپنے دلوں میں ان اداروں کے لیے سبھی المی جذبات پالے ہوئے ہیں جن کے ذمہ دار وہ ادارے ہیں جو اپنے آئینی قانونی دائرے اختیار کو عوام کی آسودگی کے بجائے اختیارات عوام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

عزت مآب
آج پڑھا لکھا پنجگور مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ کسی کا جان، مال، کاروبار محفوظ نہیں ہے۔ لوگ اسکول، مسجد، بازار، کاروبار پر جانے کے لیے ہزار بار درود شریف ورد کرتے ہیں۔ گھروں میں ماں باپ، بیوی، بچے، بہن بھائی اپنے بچوں کی اسکول، مسجد، بازار، کاروبار سے آنے کی انتظار میں قرآن مجید و یاسین شریف پڑھا کرتے ہیں کہ ان کے پیارے صحیح سالمت گھر کو واپس لوٹیں۔ لوگوں میں اس طرح کا خوف، ڈر پیدا کیا گیا ہے کہ آج سے کئی سال یہاں کے لوگ ترقی کے خواب چھوڑ دیے۔ لوگ اپنی زندگی، مال، روزگار کے تحفظ کے لیے فکر مند ہیں۔ گاڑی، بنگلہ اس دردناک سفر میں کسی کے وہم و گمان میں نہیں ہے۔ پنجگور کی گلیوں میں راتوں میں مختلف قسم کی مخلوقات نکل کر گشت کرتے ہیں، وہ آپ کو پنجگور کی گلی گلی میں گھومتے پھرتے ملیں گے۔ وہ آتشی اسلحہ لے کر رات کا مزا لوٹ لیتے ہیں۔ ان سے کوئی شخص بات نہیں کر سکتا، نہ کوئی نام لے سکتا ہے۔ سیاسی زبان میں سیاسی جلسوں میں ڈیٹھ اسکوڈ اور ریئل میں وہ لالا جان ہیں، وہ یاجوج ماجوج کسی بھی شریف شہری کی جان و مال سے کھیل سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے قانون کے رشتہ دار ہیں۔

عزت مآب
پنجگور واحد ضلع ہے جو اس وقت آتش فشاں کے لاوے میں جل رہا ہے۔ ایسا کوئی گھر نہیں جس نے جنازے نہ اٹھائے ہوں، ایسا کوئی گھر نہیں جس کے جان و مال عدم تحفظ کا شکار نہ ہوں، ان کے لوگ لاپتہ نہیں ہیں، روزگار متاثر، ان پر انتقامی کارروائیاں نہیں ہوئی ہیں۔

عزت مآب
زندگی کے چند بنیادی چیزیں ہیں جن کا تعلق جیون سے، ان کی سانسوں سے وابستگی رکھتے ہیں۔ ان بنیادی شے کو عوام تک پہنچانا آئین و قانون کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ان کی عدم رسائی، ان کے سامنے حائل روکاوٹیں سوا صرف موت، خودکشی کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے۔ آپ کے نظروں میں پنجگور شاید صوبے و ملک کے کنٹرول شدہ میڈیا سے اوجھل ہے لیکن ممکن ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ضروری وہ آپ کے نظروں سے گزرے ہوں۔ ان چھوٹے چھوٹے کلپ، تحریروں میں درد، فریاد، سسکیاں سرایت ہی ملیں گی۔ پنجگور میں جلتی سلگتی لاوا میں سینکڑوں جوانوں کے ساتھ پیر کماش، بچے، اسٹوڈنٹس، ٹیچرز، سیاسی، سماجی کارکن، پولیس، لیویز فورس کے ہلکاروں کی گمشدگی، ان کے قتل کی خبریں ضرور دیکھی یا سنی ہوں گی۔

عزت مآب
انسان کی بنیادی ضرورت امن و امان ہے۔ بدقسمتی سے پنجگور کے عوام کے لیے امن و امان خواب کی طرح ہے، کسی ہندوستانی فلم کی فلمائیزیشن کے چند لمحے کی طرح جو پلک کھولتے ہی اوجھل ہو جاتی ہے۔ ہر آئے دن گھروں میں مسلح افراد کا گھس کر لوگوں کو قتل کرنا، انہیں اٹھا لینا، ان کے گھروں کا صفایا کرنا، بازاروں، چوراہوں پر موٹر سائیکل، گاڑیوں کے چھینے، دکانداروں و عام شریف شہریوں کی موبائل، نقدی لوٹنا، فائرنگ کر کے انہیں قتل و زخمی کر دینا، مسلح افراد کی دندھانتی موجیں معمول بن گئی ہیں۔ پولیس انتظامیہ کی جانب سے نہ فرسٹ انویسٹی گیشن رپورٹ (ایف آئی آر) ہے، نہ کوئی پولیس انتظامیہ کی حرکات و سکنات دکھائی دیتی ہیں۔ پنجگور کا امن و امان بی ایریا اور اے ایریا کے ٹاس پر کھیلا جا رہا ہے۔ پولیس و انتظامیہ کی کارکردگی سے ہر طبقہ فکر مایوس ہو چکا ہے۔ اداروں کی سرپرستی سے منشیات کا پھیلاؤ، تقسیم و ترسیل، اڈوں سے بھتہ وصولی ایک کاروبار بن چکی ہے۔ عوام نے ذمہ داروں کی کارکردگی، عدم توجہی کو دیکھ کر اپنا دکھڑا رپورٹ درج کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ آج پولیس، لیویز تھانوں میں فرسٹ انویسٹی گیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کا رجسٹرڈ کا سیریل بھی رک گیا ہے کیونکہ عوام کا بھروسہ اداروں پر نہیں رہا کہ کوئی ٹپنیاں دینے والا ہے بلکہ مصنف کے روک میں قاتل بیٹھے ہوئے ہیں۔

عزت مآب
معاش ہر سانس دار شے کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کے علم میں ہے ہر بجٹ میں صوبے و وفاق کی جانب سے بلوچستان کو کم از کم دس ہزار کے کم و بیش روزگار کے مواقع کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن وہ مشتہر و بلا وجہ کینسل کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ہر سال بلوچستان کے دیگر اضلاع کی طرح پنجگور کے سینکڑوں نوجوان تعلیم سے فارغ ہو کر روزگار کی تلاش میں بے سود چکر کاٹنے پر مجبور ہو کر مایوس ہوتے ہیں۔ سینکڑوں نوجوان عمر رسید ہو جاتے ہیں اور ان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ زندگیاں کھلی گری مزدوری یا زمیدار گاڑی کے ہرجان ہو جاتے ہیں۔ یہی نوجوان اپنی خود کی تلاش کرتا روزگار جو ایران بارڈر پر چھوٹے پیمانے پر تیل کا کاروبار کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن اداروں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آئے روز ان کے اسٹیکر کی رد و بدل، بندش، مختلف الزامات سیاسی، غیر سیاسی تنظیموں کے نام پر انہیں روزگار سے محروم رکھا جاتا ہے۔ کبھی احتجاج، کبھی بی وائی سی کے نام پر انہیں روزگار سے محروم کیا جاتا ہے۔ اب تک پنجگور کے سینکڑوں اسٹیکر کو بند کر کے ہزاروں افراد کو دو وقت کی روٹی کا محتاج بنایا گیا ہے۔ تمام تر عوامی تعاون کے باوجود بے سود ثابت ہوئیں ہیں۔ ان کے اسٹیکر کی درستگی کی ذمہ داری بارڈر منیجمنٹ کمیٹی کی ہے۔ ادارے ہر عوام دانستہ یا نادانستہ غلطی کی درستگی کرکے انہیں حوصلہ دیں لیکن یہاں ہر فیصلے اول اور آخر کے فارمولے پر عمل ہو رہا ہے جس سے نفرتیں جنم لے رہی ہیں۔ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر، اے ڈی سی، بارڈر کمیٹیاں، سیاسی جماعتیں ان کی درستگی کے حوالے سے سرنڈر دکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی ذمہ داروں کا کوئی رابطہ آفس ہے کہ عوام کو براہِ راست سنیں، ان کے مسائل حل کریں۔ لیکن دکھائی یوں دیتا ہے کہ جس کا اسٹیکر بند وہ روزگار سے بے دخل پھر وہ چائے چوری کرے یا دیگر جرائم کرے، ان کی مرضی اداروں کی جانب سے کوئی درستگی کی پالیسی نہیں ہے۔ بچے کچھے جو کم و بیش لوگ روزگار کر رہے ہیں انہیں ایران پنجگور کے دونوں تیل کے انٹری چیک پوسٹ سے سرکاری اہلکار لوٹتے ہیں۔ انٹری پوائنٹ چیدگی کے اندر، انٹری پوائنٹ پر ہی تین ہزار بھتہ، دستکی چیک پوسٹ پر پانچ لاکھ، سرادوہ چیک پوسٹ پر پانچ لاکھ، گومازین چیک پوسٹ پر پانچ لاکھ، سبزاب چیک پوسٹ پر پانچ لاکھ۔ دوسری جانب ایران جیرک انٹری پوائنٹ سے گوران چیک پوسٹ، سر سانڈ چیک پوسٹ، دازی چیک پوسٹ پر پانچ لاکھ پولیس و لیویز کے اہلکار غیر قانونی، غیر آئینی طور پر زمیدار گاڑی والوں سے بھتہ لیا جاتا ہے۔ بھتہ نہ دینے پر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی ڈرائیور، کلینر اہکاروں کی تشدد سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دونوں انٹری پوائنٹ پر بے جا رش کی وجہ سے گاڑی ڈرائیور، کلینر ایک ایک ہفتے تک بغیر پانی، بغیر راشن، بغیر بیت الخلاء، نہ سر پر کوئی سایہ کے پھنس جاتے ہیں۔ ہفتے میں تین دن چھٹی، چار دن ورکنگ ڈے، اور ایک گاڑی کا نمبر تین ماہ بعد کا آجانا کسی معاشرے میں کاروبار کا عنصر و عکاس نہیں ہے لیکن یہ پالیسی ظلم کی طرح جاری و لاگو ہے۔ لوگوں نے احتجاج کیا، دھرنا دیا، پنجگور سے کوئٹہ کا سفر کیا لیکن کیا ہوا؟ بتایا جائے، کس سے سوال کریں؟ کس سے انصاف کی امید رکھیں؟ سبھی بے بس نظر آتے ہیں۔ عوام کس کے پاس جائیں؟ ادارے بضد، ضلعی انتظامیہ، سیاسی جماعتیں، بارڈر کمیٹیاں پہلے سے سرنڈر ہو چکے ہیں۔ مایوسی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟

عزت مآب
دنیا اس وقت ٹی وی چینل، اخبار، کتاب، لائبریری، تجارت، مال بردار گاڑی کے بلٹی کی فضا سے نکل کر انٹرنیٹ کی دنیا میں شامل ہو چکی ہے۔ اس وقت بلوچستان کے سینکڑوں اخبارات نے نیوز پیپرز کی چھپائی ختم کرکے ویب سائٹ، مختلف سوشل پیجز پر آ گئے ہیں۔ اب مطالعاتی عمل، کاروبار، تجارت، بلٹی کی جگہ آن لائن ہو چکی ہے لیکن افسوس پنجگور محکمہ پی ٹی سی ایل کی ڈی ایس ایل پورے پنجگور میں صرف دس فیصد، سٹی میں چند مخصوص حد تک وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت پنجگور کے موبائل نیٹ ورک یوفون، ٹیلی نار، زونگ کی ڈیٹا انسٹال ہے لیکن انہیں سیکیورٹی ریزن کے نام پر گزشتہ تین سال ہونے کو ہے کہ انہیں ڈپٹی کمشنر کے دستخط سے بند کر دی گئی ہے۔ یہ سوال محکمہ پی ٹی اے نے کمیٹی کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجگور کے موبائل ڈیٹا کو کسی مسلح گروہ، تنظیم استعمال نہیں کر رہی ہے پھر بھی بند ہے۔ اس حوالے سے پنجگور کے اسٹوڈنٹس، تاجر، سیاسی جماعت و دیگر نے احتجاج کیا، کورٹ سے رجوع بھی کیا، سبھی بے سود ثابت ہوئیں۔ پنجگور کی دس لاکھ آبادی اداروں کی اس پالیسی سے مایوس ہو چکی ہے۔

عزت مآب
بات کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاتا ہے، ملازم ہے، بیڈا ایکٹ، کاروباری شخص کے روزگار پر پابندی، سوشل ایکٹیوسٹس، سیاسی لوگوں کو ایپکا ایکٹ کی سزا دی جاتی ہے جو نہ صرف آواز، حقوق دبانے کے حربے ہیں بلکہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہیں۔

عزت مآب
محکمہ صحت میں ڈاکٹروں کی غیر موجودگی، میڈیسن کا فقدان، محکمہ ایجوکیشن میں اسکولوں کی بندش، ٹیچرز کا کھاتہ سسٹم، محکمہ پبلک ہیلتھ کا غائب پانی، زراعت سے زمیداروں کی حق تلفی و دیگر تمام اپنی جگہ کہ ان کا کہیں وجود نظر نہیں آتا۔ ان کا کوئی شکوہ گلہ نہیں کرتے ہیں، نہ کسی ادارے کی کرپشن، لوٹ کھسوٹ کا فریاد کرتے ہیں۔ ہم صرف جینے سے منسلک اپنے قانونی حقوق چاہتے ہیں۔ اس بے حسی، بے بسی، جمہوری جدوجہد، سیاسی عمل کی بیگانگی کی کیفیت کو دیکھ کر عوام کہاں جائے؟ پنجگور کے لوگ یک یک ہو کر مائیگریشن کر رہے ہیں۔ مایوس نہ ہو تو کیا کرے؟ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے لیے سہولتیں پیدا کی جائیں نہ کہ ادارے ایک غریب عوام سے دست گریباں ہو کر ان سے انتقامی راستہ اختیار کریں۔ سوال یہ ہے کہ کب تک یہ ماحول رہے گا؟ اب بتایا جائے ایک مایوس سوسائٹی کا ردعمل ملکی اداروں پر ان کی ساخت، ان کی شہرت پر کیا اثر انداز ہو سکتا ہے؟ عوام کے دلوں میں کیا پیدا ہوگی؟

عزت مآب
پنجگور کے عوام نے یہ درخواست کی ہے کہ آپ جناب پنجگور کے پہلے ڈپٹی کمشنر ہیں جن کے دفتر میں رش کا سما ہے، رش کرنے والوں کی بھانپ سے ہمیں بخوبی علم ہے۔ آج ویلکم کے قصیدے، کل مزمت کے ڈائیلاگ، روایتی بیان کا سلسلہ جاری ہوگا۔ اگر آپ واقعی اپنی منصب کے صادق و امین ہیں، آپ پنجگور کے جملہ مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں تو مسئلہ کالے شیشے اتارنے میں نہیں، کالے نظام میں تبدیلی لانے سے ہے۔ آپ جناب سو میں سے پانچ فیصد ہر ادارے میں عمل کریں تو ہمارے لیے وہ کسی جنت سے کم نہیں ہوگا۔

والسلام

برکت مری، پنجگور


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔