کوئٹہ دہشت گردی کے الزامات کے تحت قید بی وائی سی رہنماؤں سے ملاقات کی اجازت نہ مل سکی، لواحقین کا دھرنا

102

کوئٹہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں کی گرفتاری کو تین ماہ مکمل ہو چکے ہیں، جنہیں تھری ایم پی او کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔

گزشتہ روز انہیں کوئٹہ کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے مزید دس روزہ جسمانی ریمانڈ پر انہیں پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔

بی وائی سی کے مطابق عدالتی فیصلے کے بعد ان رہنماؤں کو ہدہ جیل سے سول لائنز تھانے منتقل کر دیا گیا لیکن منتقلی کے 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود نہ اہلِ خانہ اور نہ وکلا کو ان سے ملاقات کی اجازت دی گئی ہے۔

اس طرزِ عمل پر لواحقین نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ زیرِ حراست رہنماؤں کو دورانِ حراست تشدد یا غیر انسانی سلوک کا سامنا ہو سکتا ہے۔

زیرِ حراست رہنماؤں کے اہلِ خانہ گزشتہ دو روز سے سخت گرمی میں سول لائنز تھانے کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں خواتین، بزرگ، اور بچے اپنے پیاروں کی خیریت معلوم کرنے اور قانونی ملاقات کے آئینی حق کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔

اہلِ خانہ نے اعلان کیا ہے کہ جب تک انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی وہ تھانے کے باہر علامتی بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے، ان کا کہنا ہے کہ ملاقات پر پابندی آئین، قانون اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔

لواحقین نے الزام عائد کیا ہے کہ اس اذیت ناک صورتحال کی مکمل ذمہ داری پولیس، سی ٹی ڈی، ضلعی انتظامیہ اور حکومت بلوچستان پر عائد ہوتی ہے، جو دانستہ طور پر ملاقات کے حق سے انکار کررہی ہیں۔

اس دوران پولیس افسران نے اہلِ خانہ کو بتایا کہ عدالت کے حکم کے بغیر ملاقات کی اجازت نہیں دی جا سکتی تاہم اہلِ خانہ اور قانونی ٹیم عدالت کے احکامات بھی پیش کر چکے ہیں اس کے باوجود پولیس نے ملاقات کی اجازت دینے سے مسلسل انکار کیا ہے۔

اب تک صرف ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ کی ماؤں کو مختصر ملاقات کی اجازت دی گئی ہے، جبکہ دیگر تمام اہلِ خانہ اور وکلا کو محروم رکھا گیا ہے۔

بی وائی سی کی قیادت نے اعلان کیا ہے کہ اگر ملاقات کی اجازت نہ دی گئی تو بلوچستان بھر میں احتجاج کی کال دی جائے گی۔

اس صورتحال پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ ریاستی ادارے انسانی حقوق کے تحفظ کے دعوے تو کرتے ہیں مگر زمینی حقیقت ان دعوؤں کے برعکس ہے۔

بی وائی سی نے خبردار کیا ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنانا، قانونی رسائی محدود کرنا، اور اہلِ خانہ کو اذیت میں مبتلا کرنا ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ زیرِ حراست تمام رہنماؤں کو فوری طور پر ان کے قانونی اور انسانی حقوق فراہم کیے جائیں۔

اس دوران لواحقین کے دھرنے کے باعث سول لائنز تھانے کے باہر سخت سیکیورٹی نافذ کر دی گئی ہے، پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، بیریئرز لگا دیے گئے ہیں، اور تھانے کے اطراف مسلسل گشت جاری ہے۔

اطلاعات کے مطابق اہلِ خانہ اور پرامن مظاہرین پر ریاستی کریک ڈاؤن کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، جس پر انسانی حقوق کے حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی اور گرفتار رہنماؤں کے اہلِ خانہ کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر زیرِ حراست افراد کی خیریت سے آگاہ کیا جائے ملاقاتوں کی اجازت دی جائے اور ان کے تمام آئینی و قانونی حقوق بحال کیے جائیں۔