ڈروز کمیونٹی کون ہے اور وہ شامی حکومت کے خلاف بغاوت کیوں کر رہی ہے
تحریر: دودا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شام کی تاریخ کو دیکھا جائے تو تاریخ کے ہر صفحہ پر آپ کو بغاوت اور خانہ جنگی نظر آئے گی۔ شام پچھلی کئی دہائیوں سے خانہ جنگی کے ایک ایسے پاتال میں گرا ہوا ہے کہ کوئی بھی حکومت کامیابی سے شام کی اقتدار پر براجمان نہیں ہو سکی۔
بالکل!
شام کی جدید تاریخ میں علوی اقلیت کا اقتدار اور اس کے خلاف بار بار اٹھنے والی بغاوتیں ایک مستقل داستان ہیں۔ 1970 میں حافظ الاسد نے فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سنبھالا اور شام پر علوی اقلیت کی حکمرانی قائم ہوئی۔ سنی اکثریت کی بے چینی، سیاسی جبر، اور فرقہ وارانہ تقسیم نے شام کو ایک ایسے آتش فشاں میں بدل دیا جو 2011 میں عرب بہار کے ساتھ پھٹ پڑا۔
بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سنی اسلام پسند گروہوں، کردوں اور دیگر دھڑوں نے ہتھیار اٹھا لیے، لیکن ریاستی جبر، ایرانی اور روسی حمایت سے علوی اقتدار قائم رہا۔ 2024 میں احمد الشرع کی قیادت میں سنی HTS نے دمشق پر قبضہ کر کے اسد حکومت کا تختہ الٹ دیا، مگر شام میں خانہ جنگی ختم نہ ہو سکی بظاہر یہ ایک شیڈو انقلاب تھا لیکن اس میں الشرع بین الاقوامی شطرنج کی مہروں میں ایک سکہ بنا۔ شام میں ایرانی اور روسی حمایتی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ عرب اتحادیوں اور ترکی کو فتح ہوئی لیکن شام میں خانہ جنگی پھر بھی نہ تھم سکی۔
آج بھی علویوں کی شکست کے باوجود فرقہ وارانہ تقسیم، بغاوتیں اور عالمی طاقتوں کے ٹکراؤ نے شام کو خانہ جنگی کے نئے مرحلے میں دھکیل دیا ہے، ایک ایسا المیہ جس کا انجام نظر نہیں آتا۔
ہر آنے والی حکومت کو بغاوت اور خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ شام مذہبی انتہا پسندوں کے گروہ کا گڑھ بن گیا ہے، جہاں یہ مذہبی انتہا پسند تنظیمیں ہمیشہ ایک دوسرے حکومت کے خلاف بغاوت کرتی نظر آتی ہیں اور ساتھ ہی عالمی طاقتیں، خصوصاً امریکہ اور اس کے عرب اتحادی، روس، ایران اور ترکی کے مفادات نے پورے مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ شام میں بھی ایک نہ ختم ہونے والے خانہ جنگی کو جنم دیا ہے۔
اسی طرح شام کے اندر پہلی دفعہ ایک کامیاب بغاوت دسمبر 2024 میں سنی اکثریتی تنظیم (ایچ ٹی ایس) کی طرف سے احمد الشرع کی سربراہی میں 7 دسمبر کو بشار الاسد کی حکومت، جو پچھلے 50 سالوں سے شام کی تخت پر قبضہ جمائے بیٹھا تھا، کا خاتمہ کیا اور 7 دسمبر کو شام کے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر کے ایک نئی حکومت قائم کی، اور 8 دسمبر کو احمد الشرع نے اعلان کیا کہ اب شام کے اندر پہلی دفعہ ایک جمہوری حکومت قائم کی جائے گی، جس کے اندر شام ترقی کی طرف بڑھے گا اور ہم شام کو ایک نئی اور خوشحال ملک بنائیں گے۔ اور اب شام کے اندر خانہ جنگی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔
لیکن شام نے اپنی تاریخی خانہ جنگی کی طرف ایک بار پھر ثابت کیا کہ ہر ایک طاقتور اپنی طاقت اور وقت کے حساب سے شام پر وقتی طور پر اپنا قبضہ جما سکتا ہے، لیکن یہ بغاوتیں، فرقہ واریت، اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے زیادہ وقت تک شام کے اندر اپنی اقتدار کو قائم نہیں رکھ سکتا اور آج اسی طرح کی ایک اور بغاوت احمد الشرع کی حکومت کے خلاف ہوتے ہوئے نظر آ رہی ہے، لیکن اس دفعہ کی بغاوت سنی یا شیعہ کسی دوسری مذہبی فرقے کی طرف سے نہیں ہو رہی، بلکہ ایک ایسے کمیونٹی کی طرف سے ہو رہی ہے جو خود ایک فرقہ یا مذہبی نہیں بلکہ تین عقائد پر یقین رکھنے والی اقوام ہیں، جو مسلمانوں، یہودیوں، اور عیسائیوں کو مانتے ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں ڈروز کمیونٹی کی، جو اس جنگ کو اپنی وجود اور شناخت سمجھتے ہیں۔
ڈروز کون اور شام میں کہاں آباد ہیں؟
ڈروز (Druze) ایک اقلیتی قوم ہے جو مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں رہتی ہے، خصوصاً لبنان، شام، اور اسرائیل میں۔ ان کا مذہب ایک منفرد اور پیچیدہ عقائد کا مجموعہ ہے، جو اسلامی، یہودی، اور دیگر فلسفیانہ نظریات پر مشتمل ہے۔ ان کی اکثریت شامی صوبہ السویداء میں آباد ہے، جو شام کے دارالحکومت دمشق سے جنوب کی طرف 106 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ صوبہ السویداء ڈروز اکثریتی صوبہ جانا جاتا ہے، لیکن السویداء کے اندر جبل الدروز ایک پہاڑی علاقہ ہے جس کی 90 فیصد آبادی ڈروز پر مشتمل ہے۔ دنیا میں ڈروزوں کی تعداد تقریباً دو ملین کے قریب ہے اور یہ عربی زبان بولتے ہیں۔
ڈروز کمیونٹی کا کس مذہب یا فرقے سے تعلق ہے؟
ڈروز کمیونٹی کی بنیاد 10ویں صدی میں حمزہ ابن علی نامی ایک شخصیت نے رکھی، جو پہلے اسلام کے شیعہ اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے ڈروز کمیونٹی کو اسماعیلی شیعہ کہا جاتا ہے، لیکن اب وہ خود کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پیروکار نہیں مانتے۔ وہ صرف حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک اہم روحانی شخصیت مانتے ہیں لیکن وہ خود کو کسی ایک اسلامی فرقے کے طور پر پیش نہیں کرتے، بلکہ وہ خود کو اسلام کے اندر حمزہ ابن علی کی دی ہوئی عقیدت اور تعلیمات کے ذریعے ایک نئی روحانی تحریک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اسلام اور شیعہ سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔
ڈروز کمیونٹی کی مذہبی حیثیت اور عقیدت کا طریقہ کار:
ڈروز اپنی انفرادی مذہبی شناخت رکھتے ہیں، لیکن مانا جاتا ہے کہ ڈروز، خاص طور پر شیعہ اسلام کے بعض پہلوؤں سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
ڈروزوں میں توحید کے بارے میں، ڈروز مذہب میں خدا کی واحدیت پر زور دیا جاتا ہے۔ وہ خدا کو ایک مانتے ہیں اور اس کی تمام صفات کو ایک کامل اور غیر متنازعہ شکل میں دیکھتے ہیں۔ ڈروز اپنے عقیدے میں علم اور معرفت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ علم کی روشنی میں ہی انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ ڈروز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر مانتے ہیں لیکن ان کے پیروکار نہیں ہیں، وہ حمزہ ابن علی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
ڈروز عام طور پر اسلامی فرائض جیسے حج اور روزہ کو کسی حد تک نہیں مانتے ہیں، یا ان کی ادائیگی کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے۔ جس طرح اسلام میں زکوٰۃ فرض ہے اسی طرح ڈروز خیرات کو زیادہ اہم کام سمجھتے ہیں۔
ڈروز کے عقائد میں ایک منفرد تصور موجود ہے جسے “تناسخ” (reincarnation) کہا جاتا ہے۔ ان کے مطابق، روحیں بار بار نئے جسموں میں جنم لیتی ہیں یعنی اگر کوئی انسان مر جاتا ہے تو وہ کسی دوسرے انسانی روح کی شکل میں زندہ ہوجاتا ہے۔
مذہبی رسومات ڈروز کے پاس اپنی مخصوص مذہبی رسومات اور تقریبات ہیں، جو ان کی ثقافت اور عقیدے کا حصہ ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو “خواص” (كنيّات) کہا جاتا ہے، جہاں وہ اجتماعی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر عبادت کے لئے ان کی کوئی خاص عبادت گاہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی گھروں میں زیادہ تر عبادت کرتے ہیں۔ جب عید اور دوسرا کوئی خوشی کا دن منایا جائے تو وہ اپنی عبادت گاہ میں جمع ہوتے ہیں۔
ڈروز کمیونٹی کو ایک اہم چیز جو اسلام اور باقی مذہبوں سے الگ رکھتی ہے، وہ یہ ہے کہ عام طور پر اسلام یا دوسرا کوئی بھی مذہب ہو کوئی شخص اپنی مرضی سے داخل ہوسکتا ہے لیکن ڈروز مذہب میں کوئی بھی دوسرا فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص ڈروز کمیونٹی میں شامل نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ڈروز کمیونٹی سے کسی دوسرے فرقے یا مذہب کی طرف جا سکتا ہے۔ اگرچہ کوئی ایسا کرے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی ہے اور علاقے بدر کیا جاتا ہے۔
ڈروز کمیونٹی کی بغاوتوں اور جنگی تاریخ:
مشرق وسطیٰ میں امریکہ، روس اور ایران کے بڑھتے ہوئے مفادات نے ہر انسان، ہر مذہب اور ہر کمیونٹی کو ایک خانہ جنگی میں دھکیل دیا ہے، اور یہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چل رہی ہے۔ اسی خانہ جنگی کے اندر ڈروز کمیونٹی نے مختلف اوقات میں کئی جنگیں اور معرکے لڑے ہیں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے مختلف تنازعات میں۔ ان کی تاریخ میں کئی اہم مواقع شامل ہیں جہاں انہوں نے اپنی بقا اور ثقافتی شناخت کے خاطر لڑائیاں کیں۔
اسرائیل اور عرب جنگیں:
1948 کی عرب-اسرائیلی جنگ کے دوران ڈروز کمیونٹی نے کچھ علاقوں میں اسرائیل کے مخالف عرب افواج کی طرف سے لڑائی میں حصہ لیا۔ بعد میں، کئی ڈروز اسرائیلی فوج میں شامل ہوئے، خاص طور پر اسرائیل کے قیام کے بعد۔ انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اپنے وجود اور شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اگر کل کوئی بھی مصیبت پیش آئے تو اسرائیل ان کا دفاع کرے گا، جیسا کہ آج اسرائیل کر رہا ہے۔
لبنانی خانہ جنگی (1975-1990):
اس دور میں ڈروز کمیونٹی کی مختلف ملیشیا نے لبنان کے اندر مختلف فریقوں کے خلاف جنگیں لڑیں۔ ان کا ایک اہم رہنما ولید جنبلاط تھا، جو ڈروزوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے سرگرم رہا۔
شامی خانہ جنگی (2011):
اس جنگ کے دوران، ڈروز کمیونٹی نے شامی حکومت کے ساتھ ایک خاص تعلق برقرار رکھا۔ 2011 کے بعد خانہ جنگی کے دوران، ڈروزوں نے اپنے علاقے کی حفاظت کی کوشش کی، خاص طور پر السویداء میں۔ انہوں نے وہاں اپنی ایک الگ فوج بنائی جو مذہبی اکثریت پسند گروپوں سے سویداء اور ڈروز کمیونٹی کے لوگوں کی حفاظت کرتی آئی ہے۔
2011 کی خانہ جنگی کے بعد، ڈروز کمیونٹی کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کریں یا نہ کریں۔ اگرچہ وہ بشار الاسد کی حمایتی رہی ہیں، لیکن کبھی کبھار کچھ رہنماوں کی طرف سے حکومت کے ساتھ تعلقات پیچیدہ رہے ہیں۔
لیکن ڈروز کمیونٹی کی وجود اور شناخت کو ہمیشہ مذہبی انتہا پسندی گروپ سے خطرہ رہا ہے۔ اپنی شناخت کو بچانے کے لئے انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے، اور اسی طرح دوسرے فرقہ وارانہ گروہ جو بشار الاسد کے مخالف تھے۔ لیکن ڈروز کمیونٹی کی قیادت نے ابتدائی طور پر بشار الاسد حکومت کے ساتھ ایک شراکت داری قائم کی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ موجودہ حکومت ان کے مفادات کے لیے تحفظ فراہم کر سکتی ہے، خاص طور پر اس لیے کہ سنی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے خطرے کی صورت میں وہ بشار الاسد کی حکومت کو ایک محفوظ پناہ گاہ تصور کرتے تھے اسی بنیاد پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بشار الاسد کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
ڈروز رہنماؤں نے اپنی کمیونٹی کے تحفظ کے لیے کچھ خود مختاری اختیار کی اور انہوں نے اس بات پر زور دیا اور بشار الاسد کو یقین دلایا کہ اگر السویداء کی خودمختاری اور حفاظت کی ذمہ داری ان کو دی جائے تو وہ مقامی ملکی اندرونی معاملات اور امور میں مداخلت نہیں کریں گے۔ کچھ ڈروز رہنماؤں نے حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھے ہوئے تھے۔
بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے دوران ڈروز کمیونٹی نے مخالف گروپوں کی طرف سے مختلف چیلنجز کا سامنا کیا، بشمول سیاسی دباؤ، فرقہ وارانہ تنازعات، اور جنگ کے منفی اثرات۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ حکومت کے وفادار رہے ہیں۔
اب جب 7 دسمبر 2024 کو بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور احمد الشرع نے سنی اکثریتی حکومت قائم کی، تو ڈروز کمیونٹی کو اپنی وجود اور شناخت کا خطرہ نظر آ رہا ہے، اور وہ پہلے سے سنی فرقہ وارانہ کا شکار ہو چکی ہے۔ احمد الشرع کا کہنا ہے کہ اگر ہم شام کو ایک ترقی یافتہ ملک دیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں باقی مسلح گروپوں کو ختم کرنا ہوگا۔ ان مسلح گروپوں میں سے ایک کرد باغی ہیں، اور دوسرا السویداء کے اندر ڈروز کمیونٹی کی مسلح افواج ہیں۔ اب جبکہ کردوں نے مسلح جدوجہد ترک کر دی ہے اور حلب کو شام کی نئی انتظامیہ کے حوالے کر دیا ہے، اور جتنے باقی کرد گروپ تھے، سب نے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
لیکن دوسری طرف ڈروز کمیونٹی کسی بھی مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں: ایک یہ کہ احمد الشرع کا ماضی القاعدہ اور داعش سے جُڑا ہوا ہے اور اس نے شامی خانہ جنگی کے دوران داعش کے ایک ذیلی تنظیم النصرہ فرنٹ کی قیادت کی اور وہ القاعدہ میں محمد الجولانی کے نام سے سالوں سرگرم رہ چکے ہیں۔ اس لیے ڈروز قیادت سمجھتی ہے کہ اگر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو احمد الشرع انہیں زور زبردستی اسلام میں داخل ہونے کے لیے مجبور کر سکتا ہے، اس لیے وہ اس جنگ کو اپنی کمیونٹی اور مذہب کی بقاء سمجھتے ہیں۔
ڈروز کمیونٹی کو شامی حکومت میں منصفانہ سیٹ کی تقسیم پر بھی خدشات ہیں کیونکہ شامی حکومت کی 23 ارکان میں سے ڈروز کمیونٹی کا صرف ایک سیٹ ہے۔ ڈروز قیادت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ جتنا حق دیگر فرقے اور مذہب کو دیا جاتا ہے، اتنا ہی انہیں بھی ملنا چاہیے۔ لیکن سنی اکثریتی حکومت اس بات کو قبول نہیں کر رہی ہے اور ڈروز کمیونٹی پر زور دے رہی ہے کہ جلد از جلد ہتھیار ڈال دیے جائیں۔ اسی بیچ حکومت نے السویداء پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ ناکام رہے ہیں اور وقفے وقفے سے حکومت اور مسلح ڈروزوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
لیکن 13 جولائی کو باقاعدہ ڈروز کمیونٹی اور حکومتی افواج کے درمیان ایک شدید جنگ اس وقت شروع ہوئی جب ایک مقامی ڈروز کو وہاں کے ایک سنی گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی چیک پوسٹ پر لوٹا گیا اور مار پیٹ کر چھوڑ دیا گیا۔
اس واقعہ اور بے عزتی سے ڈروز کمیونٹی اور مقامی قبائل کے درمیان ایک شدید جنگ چھڑ گئی اور ڈروز کمیونٹی کا الزام ہے کہ حکومت نے سنی قبائلی گروپ کی حمایت کی۔ حکومت نے فوج اور اپنی حمایت یافتہ گروپوں کو السویداء پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا تاکہ وہ السویداء پر قبضہ کر سکے۔
احمد الشرع کا کہنا ہے کہ میں نے فوج کو حالات کو بہتر بنانے اور مزید خون خرابے سے روکنے کے لیے بھیجا ہے۔ جب کہ حکومتی فوج السویداء میں حالات کو بہتر بنانے اور ان کی پہنچنے سے پہلے اسرائیل نے شامی فوجی قافلے پر فضائی حملہ کیا۔ اسرائیل کے فضائی حملوں کی دو وجوہات ہیں: ایک تو یہ کہ ڈروز کمیونٹی کے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اسرائیل کے لیے ڈروز کمیونٹی کی دی ہوئی فوجی اور دیگر خدمات ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جبل الدروز اور اس کی سرحد اسرائیل کے ساتھ ملتی ہے، جہاں زیادہ تر ڈروز کمیونٹی کے لوگ آباد ہیں۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ شامی فوج اسرائیل کی سرحد تک کامیابی سے پہنچ سکے۔ وہ شامی فوج کے خلاف ڈروز کمیونٹی کو اس علاقے پر قبضہ جمانے کے لیے ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار ہے تاکہ اسرائیل اس خطے پر ایک بفر زون بنا سکے۔
اسرائیل نے دمشق پر حملہ کر کے شامی حکومت کو وارننگ دی ہے کہ اگر انہوں نے ڈروز کمیونٹی کے خلاف یا السویداء پر قبضہ جمانے کی کوشش کی تو اس کے لیے شامی حکومت کو اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنا پڑے گا۔
اگرچہ شامی حکومت نے اس وقت کوئی جوابی کارروائی نہیں کی، لیکن مذہبی انتہا پسند گروپوں کی جانب سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اسرائیل کی حمایت کے بعد ڈروز کمیونٹی پر حملوں میں شدت آئی ہے۔
13 جولائی کے بعد سے السویداء کے اندر چھڑپیں جاری ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اب تک دونوں طرف سے 600 سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔
عام طور پر دیکھا جائے تو جنگ اس حد تک نہیں بڑھی کہ خانہ جنگی کی طرف جائے لیکن پاور پالیٹکس میں یہ خطہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور جہاں ایک طرف امریکہ، ترکی، اور احمد الشرع کی حکومت کا حمایت کرتے ہیں تو دوسری طرف روس، ایران اور اب اسرائیل بھی احمد الشرع کی حکومت کے مخالف ہیں۔
شام ایک بار پھر ثابت کر رہا ہے کہ جب زمین پر نظریات، طاقت اور مفادات کی جنگ چھڑ دی جائے تو انسانیت ہار جاتی ہے۔ عالمی طاقتوں کی سرد جنگیں اب اس خطے کی گرم خاک پر لڑی جا رہی ہیں۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کے لیے کھیل کھیل رہے ہیں، تو دوسری طرف روس اور ایران اپنے حلیفوں کے ذریعے اپنی بساط بچھا رہے ہیں۔ اسرائیل اپنی سرحدوں کے تحفظ کے نام پر حملے کر رہا ہے، ترکی اپنے کرد مخالف ایجنڈے کے ساتھ شریک ہے، اور خلیجی ریاستیں اپنے اپنے پسندیدہ گروہوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔
ان سب کے بیچ شام کا عام انسان پس رہا ہے، وہ جو کبھی دمشق کی گلیوں میں زندگی کے خواب دیکھتا تھا، اب کھنڈرات کے درمیان اپنی شناخت تلاش کر رہا ہے۔ ایک قوم جو صدیوں سے تہذیب اور علم کا گہوارہ رہی، آج صرف ایک میدانِ جنگ بن کر رہ گئی ہے جہاں ہر کوئی اپنی اپنی چالیں چلا رہا ہے، اور کسی کو اس بات کی پروا نہیں کہ اس شطرنج کی بساط پر گرنے والے مہروں کے نام دراصل انسان ہیں۔
یہ المیہ شام کا ہی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا ہے۔ یہ وقت ہے کہ دنیا یہ سوچے کہ خانہ جنگیوں سے مفادات تو حاصل ہو سکتے ہیں، مگر انسانیت کبھی پنپ نہیں سکتی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔