پہلگام حملے کی ذمہ داری لینے والے گروہ کے خلاف تعاون پر تیار، انڈیا بی ایل اے کے حوالے سے کارروائی کرے – بلاول بھٹو

164

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انڈین صحافی کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروپ کے خلاف انڈیا سے تعاون کے لیے تیار ہے اور انڈیا کو بھی بی ایل اے اور مجید گروپ کے خلاف پاکستان سے تعاون کرنا ہوگا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کو جامع مذاکرات کے ذریعے دہشتگردی کے خطرے پر بھی کھل کر بات کرنی چاہیے اور دونوں ملکوں کے لیے اس مشترکہ چینلج سے نکلنے کا رستہ تعاون ہی ہے۔

دی وائر پر 46 منٹ سے زائد نشر ہونے والے اس انٹرویو میں کرن تھاپر بلاول بھٹو سے بار بار لشکر طیبہ اور لشکر جھنگوی سے متعلق سوال کرتے رہے۔ اس انٹرویو میں تکرار بھی ہوتی رہی۔

بلاول بھٹو نے لشکر طیبہ اور جیش محمد کے تاریخی پس منظر پر بات کی اور بتایا کہ کیسے ان گروہوں کے تانے بانے افغان جہاد سے جڑتے ہیں۔ بلاول نے کہا کہ وہ خود دہشتگردی سے متاثرہ ہیں اور ان کی ماں بینظیر بھٹو نے بھی اس جنگ میں اپنی جان دی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم کئی دہائیوں سے دہشتگردی کا مقابلہ کرتے آ رہے ہیں۔ ہم اس برائی کے ڈسے ہوئے ہیں اور اس جنگ میں ہم نے 92000 جانوں کی قربانی دی ہے۔‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ گذشتہ برس 200 دہشتگردی کے حملوں میں ہم نے 1200 سے زیادہ افراد اس جنگ میں کھوئے ہیں۔

ان کے مطابق رواں برس جتنے حملے ہوئے ہیں اور لوگ مارے گئے ہیں تو اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا یہ پاکستان کا خونی ترین سال ہوگا۔

کرن تھاپر نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دنیا ٹی وی اور انڈیا ٹو ڈے کو دیے گئے انٹرویوز کا حوالہ دیا کہ آئی ایس آئی نے لشکر طیبہ اور جیش محمد کو کشمیر میں لڑنے کے لیے تربیت دی اور حافظ سعید اور ذکی الرحمان لکھوی ہمارے ہیروز تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مشرف نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ جب تک انڈیا مسئلہ کشمیر کا تصفیہ نہیں کرتا تو ایسے حملے جاری رہیں گے۔

بلاول بھٹو نے مشرف کو ڈکٹیٹر کہہ کر پکارا اور پھر یہ بھی کہا کہ 9/11 سے قبل یہ گروپس فریڈم فائٹرز کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’افغانستان جہاد اور سرد جنگ کے دوران میری ماں اور میری جماعت کی پالیسی یہ کبھی نہیں رہی۔‘

بلاول بھٹو نے کرن تھاپر کو اس انٹرویو میں متعدد بار بتایا کہ ہم ماضی میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ انھوں نے انڈیا کو آگے بڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ماضی ہے، پاکستان ایک عمل سے گزرا ہے اور انڈیا اس عمل کو نظر انداز کر رہا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان افغان جنگ کے بعد بطور معاشرہ اور ریاست تبدیل ہوا ہے اور افغانستان کے بعد ایسے گروہوں کا نشانہ بھی بنا ہے جو القاعدہ اور دوسرے گروہوں میں تقسیم ہوئے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کسی اور ملک اور اپنے ملک میں دہشتگردی کے حملوں کی اجازت نہیں دیتا اور دہشتگردی کے اس ناسور سے نبرد آزما ہے۔

کرن تھاپر نے کہا کہ آپ نے ابھی تک انڈیا پر حملے بند نہیں کیے ہیں اور پہلگام کے بعد پاکستان نے دنیا کو یہ بتایا کہ وہ اس میں ملوث نہیں ہے جبکہ ’دی رزسٹینس فرنٹ‘ نامی گروہ نے 45 منٹ میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ کرن تھاپر نے اس کے بعد کہا کہ انڈیا نے تین بار اس گروپ کو اقوام متحدہ کی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں درج کرانے کی کوشش کی جسے چین نے پاکستان کی ایما پر بلاک کر دیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم اس گروپ کے خلاف ہر تعاون کے لیے تیار ہیں۔‘ اس کے بعد بلاول نے کہا کہ جب بھی پاکستان نے بی ایل اے اور مجید گروپ کو اقوام متحدہ کی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں ڈالنے کی کوشش کی تو انڈیا کی طرف سے اس کی مخالفت سامنے آئی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، فیٹف کے تحت اقدامات اٹھائے جسے عالمی برادری نے تسلیم بھی کیا۔ انھوں نے کرن تھاپر کو بتایا کہ یہ بہت ہی کڑی نگرانی والا عمل تھا۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ لڑائی کا حوالہ دیتے ہوئے کرن تھاپر نے کہا کہ مریدکے پر انڈین حملے کے بعد وہاں مرنے والوں کا نماز جنازہ مبینہ طور پر لشکر طیبہ سے وابستہ اور الفلاح انسانیت کے سربراہ حافظ عبدالرؤف نے پڑھائی ہے۔ کرن تھاپر نے کہا کہ اس جنازے میں لاہور کے کور کمانڈر، ایک میجر جنرل اور متعدد جونیئر فوجی افسران شامل تھے۔

بلاول بھٹو نے اپنے جواب میں کہا کہ وہ اس شخص کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے۔ تاہم بلاول نے پہلگام حملے پر بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاتھ صاف تھے تو ہم نے تحقیقات کا کہا جبکہ انڈیا نے عالمی سطح پر آزاد تحقیقات کی پیشکش کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ دہشتگردی آج انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے خطرہ ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’آج پاکستان میں جو دہشتگردی کے حملے ہو رہے ہیں یہ انڈیا کی پشت پناہی میں ہو رہے ہیں۔‘ بلاول بھٹو نے کہا کہ میں آپ کو اس کے ثبوت دے سکتا ہوں اور پھر انھوں نے کلبھوشن کا نام لیا کہ وہ انڈین فوج کا ایک حاضر سروس افسر ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے تانے بانے بھی انڈین ایجنسیوں سے ملتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ آج بھی انڈیا کا وزیر اعظم اور ان کی حکومت پاکستان کے 240 ملین لوگوں کے پانی کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ کیا وہ انڈس سولائزیشن کے دشمن بن گئے ہیں جو گاندھی اور انڈیا کی فلاسفی کے ہی خلاف ہے۔

کرن تھاپر نے بلاول سے کہا کہ یہ دہشتگردی آپ کی اپنی پیداوار ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ اب انڈیا اور پاکستان کو جامع مذاکرات کی طرف آنا ہوگا۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان میں 2012 میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو ان دہشتگرد گروہوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کریں گے۔ ان کے مطابق پاکستان یہ بتاتا رہا کہ حملے کرنے کی غرض سے کون سے لوگ سرحد پار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق لشکر طیبہ اور جیش محمد کے بارے میں پاکستان نے انڈیا کو جبکہ انڈیا نے بی ایل اے، مجید گروپ اور اس طرح کے دیگر گروپس سے متعلق معلومات دے گا۔