پنجگور: باپ کی بازیابی کے لیے جدوجہد کی پاداش میں ذیشان کو قتل کیا گیا، لواحقین

11

کفایت اللہ بلوچ نے جمعرات کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 29 جون 2025 کو نمازِ مغرب کے بعد پنجگور کے علاقے نیوان ندی کے قریب دو سیاہ رنگ کی سرف گاڑیوں میں سوار مسلح افراد نے ہمارے پیارے نوجوان، ہمارے گھر کے چشم و چراغ ذیشان ظہیر کو اُس وقت اغوا کر لیا، جب وہ فٹبال ٹورنامنٹ میں میچ کھیلنے کے بعد گھر واپس آ رہا تھا۔ ذیشان کا کسی تنظیم یا جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا، نہ وہ کسی سیاسی سرگرمی کا حصہ تھا۔ وہ ایک سیدھا سادہ نوجوان، ایک کھلاڑی، اور خاندان کا ایک ذمے دار فرد تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے فوری طور پر پنجگور پولیس اسٹیشن کو اطلاع دی اور نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔ ہمیشہ کی طرح ہم نے پُرامن راستہ اپنایا، سڑک پر احتجاج کیا اور دھرنا دیا تاکہ ذیشان ظہیر کو بازیاب کرایا جا سکے۔ ہمیں امید تھی کہ یا تو ہمارے بیٹے کو بازیاب کرایا جائے گا یا کم از کم اس کی خبر دی جائے گی۔ مگر افسوس، اگلی صبح تقریباً سات بجے اطلاع ملی کہ ذیشان ظہیر کی تشدد زدہ لاش سڑک کنارے پھینکی گئی ہے۔

اس کے جسم پر ایسے بھیانک تشدد کے نشانات تھے کہ انسانیت شرما جائے، اور پھر اُسے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ آج پورے پنجگور میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے،کیا فٹبال کھیلنے والا، کیا اپنے جبری گمشدہ والد کے لیے پُرامن احتجاج کرنے والا، کیا قانون پر یقین رکھنے والا نوجوان، ایسے سلوک کا مستحق تھا؟

ہم یہاں یہ بھی یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ ذیشان کے والد ظہیر احمد کو دس سال قبل جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ اُس وقت ذیشان ایک کم عمر بچہ تھا، مگر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اُس نے اپنی زندگی اپنے والد کی بازیابی کے لیے وقف کر دی۔ وہ ہر احتجاج میں اپنے والد کی تصویر اٹھائے شریک ہوتا رہا۔ نہ اس نے بندوق اٹھائی، نہ نفرت پھیلائی، نہ ریاست سے جنگ کی۔ اُس نے ہمیشہ قانون اور پُرامن مزاحمت کا راستہ چنا، مگر شاید یہی اس کا “جرم” بن گیا۔

ہم آج یہاں صرف اپنے دکھ کا اظہار نہیں کر رہے، بلکہ ایک مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ کوئی درخواست نہیں، ہمارا حق ہے!

ہم ضلعی انتظامیہ، بلوچستان حکومت، پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسانی حقوق کے اداروں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ذیشان ظہیر کے قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے، اس وحشیانہ قتل کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں، ذیشان کے والد ظہیر احمد کی جبری گمشدگی کا سراغ لگایا جائے۔

کفایت اللہ بلوچ نے مزید کہا کہ پنجگور میں قتل و غارت گری کا سلسلہ رُکنا چاہیے۔ اگر ریاست ہمیں انصاف نہیں دے سکتی، تو کم از کم اُن کی گردن پر بندوق نہ رکھے جو پُرامن آواز اٹھا رہے ہیں۔ ہم آخر میں صرف یہ کہنا چاہتے ہیں ، ہم خاموش نہیں ہوں گے، ہم ذیشان کی روح سے وعدہ کرتے ہیں کہ اُس کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے، اور انصاف ملنے تک آواز بلند کرتے رہیں گے۔

اس موقع پر آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی کے رہنما شاہ حسین آغا اور انجمن تاجران کے صدر فرید احمد نے 7 جولائی بروز پیر پنجگور میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا۔

پریس کانفرنس میں شریک تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے پنجگور اور آس پاس کے علاقوں کے مفاد میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیا اور پنجگور میں بڑھتے ہوئے قتل و غارت پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ذیشان ظہیر کی تعزیت ابھی جاری تھی کہ سوردو کے علاقے میں مدرسے کے ایک بچے پذیر احمد کو بھی بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پنجگور میں اسلحہ برداروں کا راج ہے، جبکہ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور حکومت حالات کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پنجگور کے عوام جلد ایک جرگہ بلا کر اہم فیصلے کریں گے۔