بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی میں نوجوان سراج اسلم کے جبری گمشدگی کے خلاف ان کے اہلِ خانہ کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ہے۔
مظاہرہ پسنی پریس کلب کے سامنے منعقد ہوا، جہاں سراج اسلم کے اہلِ خانہ نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر نوجوان کی تصاویر اور فوری رہائی کے مطالبات درج تھے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ سراج اسلم کو 5 جولائی کی رات ان کے گھر سے جبری طور پر اُٹھا لیا گیا اور تاحال ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔
سراج اسلم کے والد، محمد اسلم، نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہمارا بیٹا نہ صرف بے گناہ ہے بلکہ کبھی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں رہا۔ اُسے بغیر کسی وجہ کے گھر سے اُٹھایا گیا ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ واپس آجائے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ فیملی اس وقت شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور انہیں نہ صرف اپنے بیٹے کی خیریت کی فکر ہے بلکہ انہیں انصاف ملنے کی امید بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
مظاہرین نے حکام سے مطالبہ کیا کہ سراج اسلم کو فوری طور پر بازیاب کروایا جائے اور اُن کے خلاف اگر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔
احتجاج میں شریک مقامی سماجی کارکنان نے بھی نوجوان کے لاپتہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ برسوں سے حل طلب ہے اور اس سے نہ صرف خاندان متاثر ہوتے ہیں بلکہ معاشرتی بے چینی بھی بڑھتی ہے۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ایک حساس معاملہ رہا ہے، جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے بارہا آواز بلند کرتے آئے ہیں۔