بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء سمی دین بلوچ نے کہا ہے گزشتہ روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے حب چوکی میں ذیشان زہیر کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف ایک پرامن احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا، جو لسبیلہ پریس کلب کے سامنے ہونا تھا۔ تاہم جب مظاہرین پریس کلب کے سامنے پہنچے، تو پولیس اور انتظامیہ نے انہیں احتجاج کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔پرامن مظاہرین نے احتجاج کو حب مین روڑ پر منتقل کیا، لیکن وہاں بھی پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین پر دھاوا بول دیا۔ اس دوران چار خواتین اور ایک مرد کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے وقت مظاہرین کی مزاحمت پر پولیس کے ساتھ موجود سادہ لباس اہلکاروں نے فائرنگ بھی کی، اور متعدد مظاہرین کو زدوکوب کیا۔
انہوں نے کہا کہ چوبیس گھنٹے گزر جانے کے باوجود گرفتار افراد سے نہ ان کے اہلِ خانہ اور نہ وکلا کی ملاقات کروائی گئی ہے، اور پولیس ان کی موجودہ لوکیشن کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ اب تک ان افراد کے خلاف نہ کوئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اور نہ ہی کسی مقدمے کی تفصیل سامنے لائی گئی ہے۔
سمی دین بلوچ نے مزید کہا کہ چار خواتین سمیت پانچ افراد کو بغیر کسی قانونی جواز کے حراست میں رکھنا نہ صرف ریاستی اداروں کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہے، بلکہ یہ آئین، قانون اور اظہارِ رائے کی آزادی پر کھلا حملہ ہے۔
آخر میں سمی دین نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پرامن مظاہروں پر ریاستی کریک ڈاؤن اور طاقت کا استعمال اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ریاست خود ایک پرامن اور منظم تحریک سے خائف ہے۔ ایک ایسی تحریک جو ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے، اسے دبانے کی کوشش بذاتِ خود ظلم کی تصدیق ہے۔