پانچ سالوں میں بلوچستان میں غیرت کے نام پر 212 افراد قتل ہوئے۔ عورت فاؤنڈیشن

22

کوئٹہ عورت فاؤنڈیشن نے بلوچستان میں خواتین اور انسانی حقوق کی صورتحال پر جاری اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سال 2019 سے 2024 کے دوران غیرت کے نام پر قتل کے 212 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

یہ اعداد و شمار صوبے میں جاری صنفی تشدد اور انصاف کے نظام کی ناکامی پر ایک سنگین سوالیہ نشان بن کر سامنے آئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، ان چھ برسوں میں غیرت کے نام پر قتل کی درج ذیل تعداد سامنے آئی جہاں 2019 میں 52 افراد، 2020 میں 51 افراد سال 2021 میں 24 افراد اسی طرح سال 2022 میں 28 افراد، 2023 میں 24 افراد اور 2024 میں 33 افراد قتل کیے گئے، جن میں سے 19 خواتین تھیں۔

عورت فاؤنڈیشن کے مطابق یہ صرف وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے جب کہ درجنوں واقعات ایسے بھی ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے یا دباؤ، رسوائی اور مقامی جرگہ سسٹم کے باعث منظر عام پر نہیں آتے۔

رپورٹ کے مطابق ان پانچ سالوں کے دورانیہ میں ضلع نصیرآباد غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ رہا جہاں 73 کیسز رپورٹ ہوئے جو کل واقعات کا 34 فیصد بنتے ہیں۔

اسکے علاوہ دیگر اضلاع کی صورتحال کچھ یوں ہے جعفرآباد 23 کیسز 11 فیصد، جھل مگسی اور مستونگ میں 18، 18 کیسز 8 فیصد فی ضلع، کچھی 17 کیسز 8 فیصد، کوئٹہ 11 کیسز 5 فیصد، قلات میں 7 کیسز، صحبت پور اور لورالائی میں چھ چھ کیسز اور خضدار میں 5 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں اس امر پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ زیادہ تر کیسز میں یا تو ملزمان گرفتار نہیں ہوئے یا پھر قانونی کارروائی ادھوری رہی عدالتوں میں مقدمات کی سست روی، پولیس کا عدم تعاون اور سیاسی و قبائلی دباؤ ان معاملات میں انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹیں بنے ہوئے ہیں۔

عورت فاؤنڈیشن نے حکومت بلوچستان اور وفاقی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے، متاثرہ خاندانوں کو تحفظ اور قانونی معاونت فراہم کی جائے اور سماجی شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا، تعلیمی اداروں اور مقامی رہنماؤں کو شامل کر کے بھرپور مہم چلائی جائے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حساس تربیت دی جائے تاکہ وہ صنفی تشدد کو سنجیدگی سے لیں۔

حقوقِ نسواں کے کارکنان اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان اعداد و شمار کو “خطرے کی گھنٹی” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں خواتین کی جان، آزادی اور وقار شدید خطرات سے دوچار ہیں، اور اگر فوری طور پر قانونی و سماجی سطح پر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔