والد کے بعد بھائی کا سایہ بھی ہمارے سروں سے اٹھ گیا۔ہمشیرہ ذیشان

61

‏جبری لاپتہ ظہیر کی بیٹی اور گذشتہ ہفتے سرکاری حمایت گروہ کے ہاتھوں قتل ہونے وانے نوجوان ذیشان کی ہمشیرہ ادبیہ بلوچ نے کہا ہے کہ ذیشان کی شہادت ہمارے لیے ایک گہرا دکھ ہے، والد کے بعد بھائی کا سایہ بھی ہمارے سروں سے اٹھ گیا۔

انہوں نے کہاکہ یہ صدمہ ناقابلِ بیان ہے۔ مگر بطور بہن میرے دل کو اس بات کا قرار ہے کہ میرے بھائی نے حق کی راہ میں اپنی جان قربان کی۔ وہ سرخرو ہوا اور ہمیں اپنے ذیشان پر ہمیشہ فخر رہے گا، شہید زندہ ہے۔

خیال رہے کہ ذیشان ظہیر بلوچ کے خاندان نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں ان کے والد، ظہیر بلوچ، کی جبری گمشدگی کے خلاف مسلسل آواز بلند کرنے کی “سزا” دی گئی۔

ظہیر بلوچ کئی برسوں سے لاپتہ ہیں اور ان کے لواحقین کا دعویٰ ہے کہ وہ ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں۔ ذیشان نہ صرف اپنے والد کی بازیابی کے لیے سرگرم تھے بلکہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور مہمات میں بھی حصہ لیتے رہے۔

ذیشان کے قتل پر انسانی حقوق کے اداروں، سماجی کارکنوں اور علاقائی رہنماؤں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔