والد کی جبری گمشدگی کو تین ماہ مکمل: سیاسی مزاحمت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

53

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما اور معروف سیاسی کارکن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے اپنے والد میر بشیر احمد کی جبری گمشدگی کے تین ماہ مکمل ہونے پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے والد کو تین ماہ قبل لاپتہ کیا گیا اور تاحال ان کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

ڈاکٹر صبیحہ کے مطابق پانچ اپریل دو ہزار پچیس کو ان کے والد کو ایس پی حب سید فضل بخاری نے طلب کیا ان کے والد بغیر کسی ہچکچاہٹ کے وہاں گئے کیونکہ وہ مجرم نہیں تھے مگر جب وہ وہاں پہنچے تو ان سے کہا گیا کہ وہ واپس نہیں جا سکتے جب تک میں یعنی ان کی بیٹی بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مستعفی نہ ہو جاؤں یا خود کو حکام کے حوالے نہ کردوں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف غیر قانونی نہیں بلکہ غیر اخلاقی، غیر انسانی اور طاقت کے غلط استعمال کی بدترین مثال ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ جو لوگ ایسے جبر پر فخر کرتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ طاقت عارضی ہے مگر ظلم کا داغ مستقل ہوتا ہے آج فضل بخاری نے قانون کے محافظ کے بجائے اغوا کار کا کردار ادا کیا۔

یوم عاشورہ کے تناظر میں ڈاکٹر صبیحہ نے کہا کہ میں دعا کرتی ہوں کہ جو لوگ ظلم کرتے ہیں اور جو اس ظلم کی حمایت کرتے ہیں وہ صرف دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی جواب دہ ہوں اور جو ظالموں کا دفاع کرتے ہیں وہ جلد دیکھیں گے کہ ان کا غرور کس طرح ظلم کے زوال کے نیچے دب کر چکنا چور ہوتا ہے۔

اپنے بیان میں ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ میں صرف اٹھائیس سال کی ہوں لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ظلم آخرکار خود ہی اپنے بوجھ تلے دب جاتا ہے تاریخ کو دیکھو ان لوگوں کا انجام دیکھو جنہوں نے بلوچوں کو نقصان پہنچایا کچھ ذلیل و رسوا ہوئے، کچھ نشے میں ڈوب گئے، کچھ کو غداری نے نگل لیا اور کچھ پھانسی کے پھندے تک پہنچے وہ سب طاقت کے نشے میں مرے مگر بے عزتی کے ساتھ دفن ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ظلم کے خلاف لڑائی کبھی نہیں مرتی کیونکہ وہ سچائی اور اخلاقی اصولوں پر مبنی ہوتی ہے ظالم جتنا بھی طاقتور ہو اس کا لالچ ہی اس کی کمزوری بن جاتا ہے مظلوم کی کمزور سی آواز بھی وقت کے ساتھ ایک طوفان بن جاتی ہے اور ایک دن یہ ظلم ضرور گرے گا کیونکہ یہی فطرت کا قانون ہے یہی انقلاب کی دھڑکن ہے اور اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔

واضح رہے کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے بی وائی سی پر کریک ڈاؤن کے دوران فورسز حکام نے ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد کو طلب کرنے کے بعد حراست میں لے لیا تھا اور شرط رکھی تھی کہ ان کی بیٹی بی وائی سی سے مستعفی ہو کر خود کو حکام کے حوالے کرے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی پر کریک ڈاؤن کے دوران کوئٹہ پولیس نے تھری ایم پی او کے تحت تنظیم کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبرگ زہری اور بیبو بلوچ کو حراست میں لے لیا تھا جبکہ بی وائی سی کے شاہ جی صبغت اللہ اور گلزادی بلوچ کو ان کے گھروں سے اغوا کیا گیا۔

بی وائی سی کی قیادت گزشتہ تین ماہ سے زائد عرصے سے ہدہ جیل میں قید ہے جبکہ ان کے تھری ایم پی او کے تحت دی گئی سزا مکمل ہونے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت فورسز حکام کے احکامات پر ان کی پرامن سیاسی تحریک کو دبانے کے لیے غیر قانونی اقدامات کررہی ہے، جبکہ دیگر رہنماؤں کی عدم بازیابی اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد کی جبری گمشدگی دراصل ان رہنماؤں کو تحریک سے دور رکھنے کی ایک سازش ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستانی ریاست کے ان غیر قانونی اقدامات پر اسے جواب دہ ٹھہرائیں اور پرامن سیاسی جدوجہد کے حق کی حمایت کریں۔