نصیر آباد: عظمت بلوچ فورسز حراست میں قتل، لاش لواحقین کو دیے بغیر دفنا دی گئی

41

عظمت رند کے قتل اور انہیں نامعلوم مقام پر دفن کرنے کی تصدیق خود پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے ان کے لواحقین سے کی ہے۔

بلوچستان کے ضلع نصیرآباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان عظمت رند کو پاکستانی فورسز نے حراست کے دوران تشدد کے بعد قتل کرکے لاش دفنا دی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق عظمت رند کو 5 جون 2025 کو دن دہاڑے سبزی منڈی ڈیرہ مراد جمالی کے قریب پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ عظمت رند کو غیر قانونی حراست میں شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں وہ جانبر نہ ہو سکے، 9 جولائی کو ان کے اہلِ خانہ کو پاکستانی فوجی اہلکاروں کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ عظمت دورانِ حراست جانبحق ہو چکے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق نہ صرف یہ کہ انہیں حراست میں قتل کیا گیا بلکہ ان کی میت کو نصیرآباد کے علاقے چھتر میں ایک ویران مقام پر خفیہ طور پر دفن کردیا گیا اور لواحقین کو اسلامی و روایتی طریقے سے تدفین کا حق بھی نہ دیا گیا۔

تنظیم نے اس واقعے کو بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کے تسلسل کا حصہ قرار دیا ہے اور واقعے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں اس نوعیت کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں پاکستانی فورسز کی حراست کے دوران تشدد سے افراد کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

گذشتہ مہینے 10 جون کو بلوچستان کے علاقے کولواہ رودکان میں چھاپے کے دوران نواب ولد نوربخش کو حراست میں لے کر جرک کیمپ منتقل کیا گیا تھا جہاں بعد ازاں ان کی لاش برآمد ہوئی۔

علاقائی ذرائع کے مطابق نواب کی لاش پر بدترین تشدد کے نشانات موجود تھے، اور جسم کی حالت سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں بجلی کے جھٹکے دے کر اذیت دی گئی تھی۔

اسی طرح لاشیں حوالے نا کرنے اور نامعلوم مقام پر دفنانے کے واقعات بھی سامنے آئے جہاں مئی میں پاکستانی فورسز نے تربت ڈنک میں تین نوجوانوں کے لاشیں تحویل میں لے لئے تھے جنھیں لواحقین کے شدید احتجاج کے باجود انکے حوالے نہیں کیا گیا۔

لاشوں کی حوالگی سے انکار پر لواحقین نے کئی روز تک تربت کے ڈی بلوچ کے مقام پر دھرنا دیا، بعد ازاں انتظامیہ نے تینوں افراد کو بغیر کفن مقامی قبرستان میں دفنا دیا، جس پر ورثاء نے قبریں کھدوا کر لاشیں نکالنے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔