میرے بابا ڈاکٹر دین جان کے نام – سمی دین بلوچ

27

میرے بابا ڈاکٹر دین جان کے نام

سناٹوں کی مدھم اور پُرسوز ویران گزرگاہوں میں جب ایک دل فقط کسی ایک چہرے کی منتظرِ دید بن جائے، تو کائنات کی تمام تر رونقیں دھندلا جاتی ہیں۔ خوشبوؤں کا لمس بے اثر ہو جاتا ہے، اور روشنی اپنے مفہوم کھو بیٹھتی ہے۔ پرندوں کے پر بھی بوجھل ہو جاتے ہیں، اُن کے نغمے خاموشی کے ماتم میں تحلیل ہو جاتے ہیں، اور درختوں کے سائے جو کبھی تسکین دیتے تھے، اب ایک ویران چھاؤں کی مانند دل پر اُترتے ہیں۔ قوسِ قزح کے رنگوں میں بھی اب صرف سرخ انگارے دکھائی دیتے ہیں۔ شام کی روشنی اور صبح کی تازگی گویا کسی غم کے صحرا میں تحلیل ہو چکی ہو۔ ہر منظر میں ایک غیر مرئی زخم کی گونج سنائی دیتی ہے۔ میری آنکھیں اُنہی زخموں کی خاک میں برسوں سے آپ کے وجود کی تلاش میں بھٹک رہی ہیں، جس کی شفقت میری ہر سانس کی ضامن تھی۔ آپ کی یاد ایک مسلسل صداقت ہے، ایک ایسا سچ جس سے نہ بھاگا جا سکتا ہے، نہ اُس کے ساتھ مکمل آہنگی ممکن ہے۔ وہ میری یادوں میں فقط ایک عکس نہیں، ایک پوری کائنات ہیں، جہاں لفظ نہیں ہوتے، صرف خامشی کی چیخ سنائی دیتی ہے۔

بابا جان، آپ کی عدم موجودگی میں میرے اندر ایک ایسا خلا آباد ہو چکا ہے، جس میں ہر خوشبو بے وطن، ہر لمس بےمعنی، اور ہر امید ایک زخمی پرندے کی مانند ہے۔ جب کبھی کسی گلی میں، کسی چوراہے پر، کسی بچی کو اپنے والد کی انگلی تھامے دیکھتی ہوں، تو ایک ایسی پیاس جاگتی ہے جو زبان سے نہیں، آنکھوں سے پانی مانگتی ہے۔ ایک آگ ہے جو آنسوؤں کو بھی جلا دیتی ہے۔ وہ آگ ہر چیز کو راکھ نہیں، فلسفہ بناتی ہے، اور اس فلسفے کا نام مزاحمت ہے۔ میں اکثر تھک ہار کر جب تنہائی کی گود میں گری جاتی ہوں، تو دور کہیں بولان کی کسی چوٹی سے ایک بازگشت سنائی دیتی ہے، جو آواز نہیں، الہام ہوتی ہے۔ وہی لہجہ، وہی سادگی، وہی سکون بھری استقامت سے لبریز صدا مجھے پکارتی ہے کہ سمی، ہمت نہیں ہارنی، یہ بقاء کی جنگ میں زیست فانی ہو سکتی ہے، لیکن فکر و فلسفہ کبھی بھی گمنامی کی بھینٹ نہیں چڑھتے۔ یہ صدا میرے اندر ایک بھاری ہتھیار کی مانند گونجتی ہے، جو نہ صرف میرے کاندھوں پر فریضے کی ذمہ داری لاد دیتی ہے بلکہ میرے دل کی دھڑکن کو مقصد کا روپ بھی دے دیتی ہے۔ میں پھر رختِ سفر باندھ لیتی ہوں، کسی ماں کے زخموں پر مرہم رکھنے، کسی بہن کی چیخ میں صدا بننے، کسی گمنام قبر پر پھول رکھنے۔

جب کبھی آئینے میں خود کو دیکھتی ہوں، تو میری پیشانی پر سولہ سال کی سلگتی ہوئی تحریر کندہ نظر آتی ہے۔ ایک ایسی تحریر جو درد، جدائی، کرب، اور سوالوں سے بھری ہوتی ہے۔ یہ تحریر تب اور روشن ہو جاتی ہے، جب میں ظلم کی سیاہ راتوں میں سکوت کی کوئی کرن تلاش کرتی ہوں، کوئی لفظ جو مجھے ابا کی مہربانی جیسا لگے، کوئی لمس جو اُن کے لمس جیسا ہو۔ مگر یہ کرب محض ایک فرد کے فُقدان کا نہیں، یہ ایک قوم کی اجتماعی تڑپ ہے، ایک ایسی اذیت جسے میں نے دل میں نہیں، رَگوں میں بہتے دیکھا ہے۔ یہ وہ خلاء ہے جو صرف آنسو نہیں بھرتے، صرف مزاحمت ہی اُسے معنویت بخشتی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو باہر دشمن سے کم اور اندر کی ٹوٹ پھوٹ سے زیادہ لڑی جاتی ہے۔

ایسا بھی وقت آیا جب لگا جیسے ان سولہ برسوں میں میں نے ایک ہی تصویر کو روز، ہر لمحے، ہر سانس کے ساتھ دیکھا۔ ایک ایسی تصویر جو صرف یاد نہیں، ایک آئینہ بھی تھی، جس میں میں نے خود کو ہر دن مرتے اور دوبارہ زندہ ہوتے دیکھا۔ جیسے صحرا میں پیاسہ مسافر سراب کے پیچھے اپنی ہڈیوں کی جھنکار میں گم ہو جائے۔ مگر جس چیز نے مجھے مرنے نہیں دیا، وہ تھی ایک صبح کی امید۔ ایک ایسی صبح جہاں کسی بیٹی کی آنکھوں میں باپ کی جدائی نہ ہو، جہاں کوئی ماں اپنی چادر کا کفن نہ بنائے۔ میں اس امید سے زندہ ہوں، ایک دن آئے گا جب ہم فقط یاد کے سہارے نہیں، حقیقت کے سنگ جیئیں گے، جب آوازیں صرف چیخیں نہیں ہوں گی، بلکہ اعلانِ آزادی ہوں گی۔

بابا جان، آپ شاید جسمانی طور پر اوجھل ہو چکے ہیں، لیکن آپ کی فکر، آپ کا نظریہ، آپ کی للکار آج بھی میرے دل میں زندہ ہے۔ وہ اب مجھ میں بولتے ہیں، میری قلم میں لکھتے ہیں، میری قدموں میں چلتے ہیں، میری نعروں میں گونجتی ہیں۔ اور جب میں تنہائی میں چیخوں کو الفاظ دیتی ہوں، تو آپ آواز بن کر مجھے کہتے ہیں کہ سمی، میں تم میں مزاحمت کی صورت زندہ ہوں۔ میں اُس وقت تک قید سے آزاد رہوں گا، جب تک تم اپنی آنکھوں میں بغاوت کی چمک باقی رکھو گی۔ جب تک تم ماں کے آنسو کو نعرے میں بدلتی رہو گی، میں تمھارے اندر، دیواروں سے پَرے، زندہ رہوں گا۔

یہ سولہ سال صرف صبر کا نام نہیں، یہ ایک مکمل فکری ارتقاء کا سفر ہے، جو صرف ایک بیٹی کی تنہائی سے نکل کر پوری قوم کی اجتماعی چیخ میں ڈھل گیا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں آنسو فقط دکھ کا اظہار نہیں، بلکہ جدوجہد کا ایندھن ہیں۔ جہاں خامشی شکست کی علامت نہیں، بلکہ تحمل سے لکھی گئی مزاحمت کی تحریر ہے۔ سمی فقط سمی نہیں رہی، وہ اب ہر اُس بچی کی آواز ہے جو اپنے والد کے وجود کی چادر سے محروم ہے۔ وہ ہر اُس ماں کی بیٹی ہے جس کی گود میں فقط بیٹے کے کپڑوں کی بو باقی رہ گئی ہے۔ وہ ہر اُس قوم کی علامت ہے جو بغاوت میں سانس لینا سیکھ چکی ہو۔

جب کوئی باپ چھین لیا جائے تو بچپن، جوانی، ہر لمحہ ایک ایسے سوال میں بدل جاتا ہے جس کا جواب صرف خلا میں گونجتا ہے۔ سولہ برس گزر چکے ہیں، لیکن میرے اندر ایک بچی اب تک ہر رات دروازے کی طرف دیکھتی ہے۔ ہر دستک پر چونک اٹھتی ہے، ہر خواب میں ایک ہی سایہ ڈھونڈتی ہے۔ میں نے ان برسوں میں دنیا کو بدلتے دیکھا، مگر میرے اندر وہ لمحہ ویسا کا ویسا رہا جس دن مجھے آپ سے محروم کیا گیا۔ ان سولہ برسوں نے مجھے ماں بھی بنایا، باپ بھی، اور ایک قوم کی بیٹی بھی۔ لیکن ان سب سے پہلے میں وہ بیٹی ہوں جس نے آپ کے لہجے میں وفا سیکھی، آپ کی آنکھوں سے راستے پہچانے، اور آپ کی جدائی سے عزم کی آگ چرائی۔

کبھی کبھی سوچتی ہوں، کیا واقعی آپ چلے گئے ہیں؟ یا آپ کی موجودگی اب میرے لہجے، میری آنکھوں، میرے عمل میں رچ بس گئی ہے؟ میں جب کسی وزیر، مشیر یا میر کی آنکھوں میں سوال بن کر اُترتی ہوں، جب کسی ادارے کے جھوٹے بیانیے کو چیلنج کرتی ہوں، یا جب کسی ماں کو سینے سے لگا کر خاموشی سے اس کا درد بانٹتی ہوں، تو کیا یہ آپ کی واپسی نہیں؟ کیا ان سب میں آپ بول نہیں رہے؟ میں یقین سے کہتی ہوں، آپ ہر اس لمحے میں زندہ ہوتے ہیں جب میں اپنے دکھ کو پکار میں نہیں، پکار کو مزاحمت میں بدلتی ہوں۔

‏‎آپ کی گمشدگی کے بعد، میں جبر کے ایک ایک دن کو نہیں بھولی۔ وہ دن جب آپ کو ہم سے چھینا گیا، اور وہ ہر دن رات جو آپ نے زندان کی تاریکی میں کاٹی — گرمی میں پسینے سے تر، سردی میں کپکپاہٹوں سے بھری — مجھے ازبر ہیں۔ اذیت کے وہ لمحے، آپ کے جسم سے ٹپکتا ہر قطرہ خون کی مانند میری رگوں میں دوڑتا ہے۔ ہر درد، ہر سسکی، ہر بےخواب رات، میری ذہن کے خانوں میں نقش ہے۔‎آپ کی گمشدگی کے بعد، آپ کے ماں کی ہر پکار، آپ کی بیوی کے انتظار کے لمحات، اور آپ کی بیٹیوں کی ہر آنسو بھری آنکھ — یہ سب میرے دل ہو چکے ہیں۔ نہ کبھی بھولی ہوں، نہ کبھی بھول سکوں گی۔

میں جو کچھ کرتی ہوں، تمہاری بازیابی کی جدوجہد میں جو بھی تکلیفیں سہتی ہوں اسکا مجھے ملال نہیں ہے کیونکہ میں اس یقین کے ساتھ لڑتی ہوں کہ زندان کے کسی کونے میں آپ مجھے دیکھ رہے ہیں اور فخر کررہے ہیں کہ آپکی بیٹی آپکی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس یاس کے ساتھ میں ہر قدم تمھارے شفیق و مہربان سائے کی ٹھنڈک آگے بڑھاتی ہوں کہ ایک نہ ایک دن میں سائے کا وجود اپنے آنکھوں میں سماؤنگی؛ اُس لہجے کو اپنی روحِ رواں میں جذب کروں گی جس کو سُننے کیلئے میں ظلم کی خاموش رات کو سہنے کیلئے کمربستہ ہوں؛ درد کی ہر چیخ کو حلق میں پناہ دینے کیلئے تیار ہوں، کیونکہ کرب کی راتوں میں ہی مزاحمت کے چراغوں کی افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

‏‎بابا جان، آپکی بیٹی مہلب کو مجھ سے شکایت ہے کہ میں آج کل آپکی تصویر نہیں اٹھاتی، لیکن آپکی بازیابی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ میں نے ہر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنے کا مقصد لیا ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ بھی یہی چاہتے ہیں؛ اس وجہ سے اب میں صرف آپ کی تصویر نہیں اٹھاتی بلکہ ہر گمشدہ افراد کے لئے لڑنا میرا مقصد بن چکا ہے۔ آپ کے نظریے کو لیکر میں بلوچ قوم پر ہونے والے ہر جبر اور ناانصافی لے لئے لڑرہی ہوں۔ یہ لڑائی اب میرے شناخت کا حصہ بن چکی ہے؛ اب میرے خون کی رگوں میں مزاحمت کا اٹوٹ حقیقت بن چکی ہے۔

آج جب دنیا ہمارے جذبوں کو “شدت” کہہ کر رد کرتی ہے، جب ہمارے دکھ کو اعداد و شمار میں گھٹا کر رپورٹوں کی فائلوں میں دفن کیا جاتا ہے، تو میری روح آپ کی طرح خامشی سے کہتی ہے: ہم محض دکھ سہنے والے نہیں، ہم تاریخ لکھنے والے ہیں۔ ہم ماضی کی خاکستر سے نئی صبح کا آفتاب تراشنے والے لوگ ہیں۔ میری مزاحمت آپ کی باقیات نہیں، آپ کی موجودگی ہے۔ میرے بولے گئے لفظ آپ کے ادھورے جملے ہیں۔ میری لڑائی، آپ کی ادھوری چیخ کا تسلسل ہے۔

‏‎ تمہیں جہاں بھی لے گئے ہوں — کسی بھی تاریک کوٹھڑی میں — میں تمہاری طاقت کو محسوس کر سکتی ہوں۔ انہوں نے تمہیں خاموش کر دینے کی کوشش کی، مگر وہ تمہاری روح کو کبھی نہیں توڑ سکتے۔ وہ اُس عزم کو ریزہ ریزہ نہیں کر سکے جو زندان کی دیواروں کے سوراخوں سے نکل کر اب ہماری روح میں سرائیت کر چکی ہے۔ وہ تمہاری بیٹیوں میں، تمہاری قوم میں زندہ ہے۔جس یقین کے ساتھ آپ اس قوم کے لئے سولہ سالوں سے زندان میں قید ہیں وہ قوم آپ کے فلسفے کو لیکر آپکی مزاحمت میں ایک نئی اُمنگ جلا بخش رہی ہے اور خون و خید سے سجائے گئے جدوجہد کے اس روشن و منور سفر کو حتمی منزل تک لے جانے میں مصروفِ عمل ہے۔

میری ہر صبح اس دعا سے شروع ہوتی ہے کہ کسی اور بچی کو میرے جیسا کرب نہ سہنا پڑے۔ میری ہر رات اس امید پر ختم ہوتی ہے کہ میرے والد کی طرح ہر گمشدہ شخص کا نظریہ زندہ رہے، اور ہم ان نظریات کو دیواروں، جیلوں، گمنامی اور مار دھاڑ کے بیچ سے نکال کر اگلی نسل کے ہاتھوں میں منتقل کر سکیں۔ میں نہیں چاہتی کہ میری داستان میں صرف ایک لاپتہ والد کی بیٹی کی آنکھوں کا آنسو لکھا جائے۔ میں چاہتی ہوں کہ اس میں ایک لڑنے والی، ڈٹنے والی، اور زندگی کے ہر ذرے میں مزاحمت ڈھونڈنے والی بیٹی کی آگ بھی نظر آئے۔

آج میں آپ سے مُخاطب ہو کر دنیا کے سامنے برملا کہتی ہوں کہ میں سمی دین بلوچ ہوں۔ میں ایک بیٹی ہوں، جو سولہ برس سے درد کے ساتھ جینا سیکھ رہی ہے۔ میں ایک سپاہی ہوں، جو خوابوں کو اسیر رکھنے والوں سے لڑ رہی ہے۔ اور میں ایک چراغ ہوں، جو اُس دن تک بجھنے والا نہیں، جب تک میرے والد جیسے ہر گمشدہ شخص کی پکار، ایک حق و انصاف کی صبح کی اذان نہ بن جائے۔ اب میں ان سولہ سالوں کے کرب کو اپنی للکار بنا چکی ہوں؛ اب میں اس وقت تک لڑوں گی جب تک یہ وجود ریزہ ریزہ ہو کر بکھر نہ جائے—شاید بکھرنے کے بعد بھی عزم، حوصلے اور فکر میں لپٹی یہ مزاحمت خوشبو کی مانند ہوا میں تحلیل ہو کر امر ہو جائے گی اور مزاحمت کا یہ سفر سمندر کی طرح ہمیشہ کیلئے زندہ و پائندہ بن رہ جائے گی۔

آپکی بیٹی
سمی دین بلوچ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔