مطالعہ: شعور، تہذیب اور فکری عبادت – داد جان بلوچ

112

مطالعہ: شعور، تہذیب اور فکری عبادت

تحریر: داد جان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مطالعہ انسانی ذہن کا وہ دریچہ ہے جس کے پار دیکھنے سے آدمی صرف دنیا نہیں، خود اپنے وجود، فکر، تاریخ اور وقت کو ایک نئے زاویے سے سمجھنے لگتا ہے۔ یہ عمل انسانی بیداری، شعور کی پختگی اور تہذیبی تسلسل کا ستون ہے۔ مطالعہ نہ صرف فرد کو باشعور بناتا ہے، بلکہ معاشروں کی فکری ساخت بھی اسی کے دم سے ترتیب پاتی ہے۔ آج کی ٹیکنالوجی سے بوجھل، تیز رفتار اور سطحی دنیا میں، مطالعہ ایک خاموش مگر طاقتور مزاحمت ہے — جہالت، عجلت، اور جذباتی غلامی کے خلاف۔

فلسفے میں مطالعے کی قدر: عہدِ قدیم سے عہدِ جدید تک

افلاطون (Plato) نے “ریپبلک” میں کہا تھا کہ علم وہ روشنی ہے جو غار میں قید ذہنوں کو باہر کی حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ اس کے مطابق مطالعہ ہمیں “ظواہر” سے “ماہیت” کی طرف لے جاتا ہے۔ ارسطو (Aristotle) کے نزدیک مطالعہ تجربے کی بالیدگی ہے، جو فہم و تجزیہ کو حقیقت کی شناخت کی طرف مائل کرتا ہے۔

قرون وسطیٰ میں بوئتھیئس (Boethius) نے مطالعے کو “روح کی غذا” قرار دیا۔ نشاۃ ثانیہ کے دوران فرانسس بیکن (Francis Bacon) کا مشہور قول تھا:
“Reading maketh a full man.”
(یعنی مطالعہ انسان کو مکمل بناتا ہے)
ایمانوئل کانٹ (Immanuel Kant) نے مطالعے کو “تنقیدی شعور” کی بنیاد کہا، کیونکہ اس کے مطابق انسان کی نجات خود سوچنے کی صلاحیت میں ہے اور مطالعہ اسی صلاحیت کو بیدار کرتا ہے۔

فکری اور تنقیدی شعور کی بنیاد

مطالعہ فرد کو تقلید سے نکال کر تجزیہ کی دنیا میں داخل کرتا ہے۔ وہ جو سنتا ہے، اس پر سوال اٹھاتا ہے۔ وہ جو پڑھتا ہے، اسے پرکھتا ہے۔ وہ جو دیکھتا ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تنقیدی شعور فرد کو ایک آزاد، خودمختار اور باشعور اکائی بناتا ہے وہ اکائی جو معاشرے کی تشکیل میں فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔

تھیوڈور آڈورنو (Adorno) اور ہربرٹ مارکوسے جیسے مفکرین کے مطابق جدید سرمایہ دارانہ معاشرے میں مطالعہ “ثقافتی انڈسٹری” کے خلاف ایک خاموش بغاوت ہے ایک ایسا عمل جو فرد کو “کنزیومر” سے “سوال کنندہ” بناتا ہے۔

مطالعہ: تنہائی کی عظمت کا تجربہ

مطالعہ وہ عمل ہے جو تنہائی کو تنہائی نہیں رہنے دیتا، بلکہ اسے فکری ہم نشینی میں بدل دیتا ہے۔ مارسل پروست (Marcel Proust) کے بقول:
“Reading is that fruitful miracle of a communication in the midst of solitude.”
کتابیں قارئین کو وقت، جگہ اور نسلوں کی قید سے نکال کر ان انسانی ذہنوں سے ہم کلام کرتی ہیں جنہوں نے اپنے دور کی فکری جستجو کو لفظوں میں محفوظ کر دیا۔ یہ ہمکلامی ایک ایسے مکالمے کی صورت اختیار کر لیتی ہے جو قاری کو تنہائی میں بھی تنہا محسوس نہیں ہونے دیتا۔

تاریخ اور تہذیب کا تسلسل

ہَیگَل (Hegel) کے فلسفہ تاریخ میں مطالعہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے ہم “روحِ وقت” (Spirit of the Age) کو سمجھ سکتے ہیں۔ مطالعہ ہمیں تاریخ کی سطحی بیانیوں سے نکال کر اس کے داخلی محرکات اور فلسفیانہ ساخت کی طرف لے جاتا ہے۔

میشل فوکو (Michel Foucault) نے مطالعے کو “ڈسکورس کی تحلیل” کا بنیادی ذریعہ قرار دیا۔ یعنی مطالعہ وہ عمل ہے جس سے ہم طاقت، زبان، اور علم کے درمیان پیچیدہ رشتوں کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔

شخصیت سازی کا فکری عمل

مطالعہ محض علم نہیں دیتا، وہ شخصیت میں ایک خاص طرح کا وقار، سکوت اور گہرائی پیدا کرتا ہے۔ وہ قاری جو دستوفسکی، ٹالسٹائی، نطشے یا کامیو کو پڑھ چکا ہو، وہ دنیا کو ایک عمومی انسان کی نسبت بہت مختلف آنکھ سے دیکھتا ہے۔

مطالعہ ایک غیر مرئی تربیت ہے جو انسان کو خود سے مکالمہ کرنا سکھاتی ہے، خاموشی سے سوالات کو جنم دیتی ہے اور روح کو تجربے کی سچائی سے آشنا کرتی ہے۔

عصری زوال میں مطالعے کی معنویت

آج کے شور زدہ دور میں، جہاں خیالات 60 سیکنڈ کی ویڈیو اور 140 الفاظ کے ٹویٹ میں بند ہو چکے ہیں، مطالعہ ایک خاموش مگر مہذب احتجاج ہے۔ یہ احتجاج ذہنی جمود، گروہی نعرہ بازی، اور علمی کج فہمی کے خلاف ہے۔

جیسا کہ سلووے ژیژک (Slavoj Žižek) نے کہا:
“In today’s world, reading is a radical act.”
مطالعہ اب محض علم کا ذریعہ نہیں رہا، بلکہ ایک سیاسی اور تہذیبی مزاحمت ہے ایسی مزاحمت جو فرد کو سوچنے، سمجھنے، اور اپنے شعور کو آزادی دینے پر مجبور کرتی ہے۔

نتیجہ: مطالعہ بطور وجودی عمل

مطالعہ انسانی وجود کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ یہ محض علم کی تحصیل نہیں بلکہ وجود کی دریافت، شعور کی بیداری، اور تہذیب کی بقا کا راستہ ہے۔ وہ معاشرے جو مطالعہ ترک کرتے ہیں، صرف علمی زوال کا شکار نہیں ہوتے، وہ اپنی روحانی اور فکری شناخت بھی کھو دیتے ہیں۔

مطالعہ فرد کو محض معلوماتی مخلوق (Informational Being) نہیں بناتا، بلکہ ایک زندہ اور بیدار شعور بناتا ہے ایسا شعور جو دنیا کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حرفِ آخر

مطالعہ فقط کتابوں کا بوجھ نہیں، یہ ذہن کی آزادی، زبان کی لطافت، اور انسان کی عمق پسندی کی علامت ہے۔ جو نوجوان مطالعے سے دوستی کرتے ہیں، وہ مستقبل کی فکری قیادت کے اہل ہوتے ہیں۔ اور جو قومیں مطالعے کو شعار بناتی ہیں، وہ وقت سے آگے کی سوچتی ہیں۔

مطالعہ کی ترویج صرف فرد کا نہیں، بلکہ پورے معاشرے کا فکری فریضہ ہے۔ اگر ہم ترقی، آزادی اور وقار کے خواہاں ہیں، تو ہمیں مطالعہ کو عادت نہیں، عبادت بنانا ہوگا — ایک فکری عبادت۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔