مزاحمت کا علمبردار’’صفیان کرد‘‘
تحریر: دیدگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب سوشل میڈیا پر صفیان کرد کی بابت اس عمومی بحث نے جنم لیا کہ ایک ایسا نوجوان جو یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور جیسے ممتاز ادارے کا طالبعلم رہا، لیکن بعد ازاں بلوچ لبریشن آرمی کا حصہ بنا؟ تو اس بحث میں اکثر صدائیں اس کے فیصلے کو وقتی اشتعال، ذاتی اذیت یا جذباتی صدمے کا شاخسانہ قرار دیتے سنائی دیے۔ بعض نے کہا کہ وہ ریاستی جبر سے تنگ آکر شدت پسندی کی طرف مائل ہوا، کچھ نے اسے ایک ناراض نوجوان کا لقب دے کر اس کی مزاحمت کو انفرادی غصے کا روپ دینے کی کوشش کی لیکن آواز کسنے والوں کے نکتہ نظر میں ایک بنیادی خامی یہ نظر آرہی تھی یہ کہ وہ یہ سارا بیانیہ صفیان کے عمل کو فقط ردِ عمل تک محدود کر رہے تھے، جبکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ، گہری اور تاریخی ہے۔ ویسے ہمارا دشمن اور دشمن کے ٹاؤٹس ہمہ بلوچ مسئلے کو سمجھتے ہوئے بھی لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ سوچ اپناتے ہیں جیسے انہوں نے شہید صفیان کرد کے بارے میں رائے قائم کیا۔
بلوچ و بلوچستان کے حالات اور تاریخ وغیرہ سے آگہی رکھنے والا کبھی بھی ایسا کوئی نقطہ نظر نہیں اپنا تھا جو صداقت پہ مبنی نہ ہو۔ صفیان کرد کے بارے میں بھی ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے بندوق محض جذبات کی رو میں بہہ کر مزاحمت کا راستہ نہیں اپنایا، یا وہ کسی حادثاتی صدمے یا انفرادی المیے سے دوچار ہو کر اس طرف نہیں گیا۔ اس کا فیصلہ، اس کی بغاوت، اور اس کی قربانی ایک گہرے فکری، سیاسی اور نظریاتی پس منظر سے جنم لیتی ہے۔ ایک ایسا شعور جو وقت، مطالعہ، مشاہدہ اور ورثے کی بنیاد پر پروان چڑھا۔
وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا کہ پاکستانی ریاست کے تمام جمہوری اور آئینی دروازے بلوچ قوم کے لیے بند کیے جا چکے ہیں۔ اسے معلوم تھا کہ نہ پارلیمنٹ میں بلوچ آواز کی کوئی حیثیت ہے، نہ عدالتوں میں بلوچ خون کی کوئی قدر۔ نہ میڈیا پر بلوچ سچائی کی کوئی گنجائش ہے، نہ جامعات میں بلوچ سوال کی کوئی جگہ۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ سب کُن فیکون والے فارمولے کے تحت ہوا، بلکہ اس کا خانداانی پسِ منظر کا بھی اس میں بڑا عمل دخل ہے کہ اسی خاندان میں بابوعبدالرحمٰن کرد، احمد شاہ کرد، علی شیر کرد، شیرزمان کرد، اور ان جیسے دیگر باجرات فرزند گزرے ہیں، جن کی زندگیاں قوم کے لیے وقف تھے۔ یقیناً ایسی وراثت کا اثر پڑتا ہے، اور لوگ سوچنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیوں؟ انہوں نے اس راستے کا انتخاب کیا؟
ازاں بعد وہ اپنے سوال کا جواب تلاش کرتا ہے، جس کے لیے معاشرہ ہی سب سے بڑا استاد ہوتا ہے اور وہی اس کے اس سوال کا بہتر جواب دیتا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے سماج کو اس استعمار نے کس قدر پراگندہ کیا ہوا ہے، جہاں اس کے ستم سے کوئی محفوظ نہیں۔ جبکہ پنجاب میں تو امن وخوشحالی۔ اور ان کی اس خوشحالی سے بلوچوں کے لہو کی بُو آتی ہے۔ صفیان نے بھی یقیناً ان تمام عوامل کا مشاہدہ کیا۔ جہاں اس کی وراثت مضبوط تھی، وہاں ظلم و ستم کا بازار وہ کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ لہذا اس نے فیصلہ کرلیا کہ مسلح مزاحمت ہی آخری راستہ ہے۔ کہ بلوچستان ایک ایسا خطہ بن چکا ہے جہاں پرامن احتجاج کرنے والے لاپتہ کر دیے جاتے ہیں، فکری بات کرنے والوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے، اور لوگ دشمن کے ہاتھوں آئے روز ماورائے عدالت قتل کردیے جاتے ہیں۔ ایسے میں مزاحمت، ردِ عمل نہیں، شعور بن جاتی ہے۔ صفیان کرد نے جب بندوق اٹھایا، تو وہ دراصل ان بند دروازوں پر آخری دستک تھی۔ ایک ایسا پیغام جو لفظوں میں سنے جانے سے قاصر تھا، لہٰذا اسے گولیوں کی زبان میں ادا کرنا پڑا۔
صفیان کی شخصیت کسی ٹوٹے ہوئے نوجوان کی نہیں تھی، بلکہ ایک جاگے ہوئے نوجوان کی بن چکی تھی کہ وہ جانتا تھا کہ وہ مزاحمت کا علمبردار ہے۔ اس کی فکری تربیت، خاندانی پس منظر، اور سیاسی شعور نے اسے اس مقام تک پہنچایا جہاں وہ فیصلہ کر سکا کہ خاموشی اب جرم ہے، اور مزاحمت ایک فریضہ۔ اس کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں سیاست ذاتی مفاد نہیں بلکہ نظریاتی امانت سمجھی جاتی تھی۔
ہم جب بھی بندوق کی بات کرتے ہیں تو اسے فوراً تشدد، نفرت اور قتل سے جوڑ دیتے ہیں۔ لیکن بلوچ تحریک میں بندوق کا مفہوم بالکل جداگانہ ہے، جہاں یہ بندوق حملہ نہیں، دفاع ہے تصور کیا جاتا ہے اور یہ کسی بھی قانون میں جرم کے زمرے میں نہیں آتا۔ لہذا ایسی مزاحمت، نفرت نہیں، شناخت کی حفاظت خیال کیا جاتا ہے۔ یہ وہ بندوق ہے جو چیخ رہی ہے کہ ہم زندہ ہیں، ہمیں دیکھا جائے، ہمیں سنا جائے۔ یہ اس نظام پر سوالیہ نشان ہے جو اپنی رعایا کو انصاف دینے میں ناکام رہا ہے، بلکہ اس کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ریاستی حربہ استعمال کر رہا ہے۔
صفیان کی بندوق محض ایک ہتھیار نہ تھی۔۔۔ وہ ایک دلیل تھی، وہ ایک سوال تھا، وہ ایک بیانیہ تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اگر تعلیم یافتہ، باشعور، پرامن اور متحرک نوجوانوں کے لیے ریاست میں کوئی جگہ نہیں، تو وہ اپنی جگہ خود پیدا کریں گے۔ خواہ وہ پہاڑوں میں ہو، زیرزمین ہو یا شہادت کے بعد تاریخ میں۔ صفیان نے موت کو گلے لگانے کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا کہ وہ زندگی سے مایوس تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ زندگی کو ایک نئے مفہوم میں دیکھتا تھا۔ ایک ایسی زندگی جو عزت، اختیار اور شناخت کے ساتھ ہو۔ ایک ایسی زندگی جس میں انسان محض شناختی کارڈ نمبر نہ ہو، بلکہ ایک مکمل وجود ہو۔
صفیان کا یہ فیصلہ دراصل ایک فکری انقلاب تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جو قومیں خاموش رہتی ہیں، وہ مٹا دی جاتی ہیں، اور جو بولتی ہیں، وہ مار دی جاتی ہیں۔ لیکن اگر ایک نسل خاموش رہے، اور دوسری ماری جائے، تو تیسری نسل فیصلہ کرے گی کہ وہ مٹی میں ملے گی یا تاریخ بنے گی۔ صفیان نے تاریخ بننے کا فیصلہ کیا۔ اس نے وہ راستہ چُنا جو خطرناک تھا، لیکن باوقار تھا، جو دشوار تھا، لیکن باعزت تھا، جو محدود تھا، لیکن دائمی تھا۔
وہ محض بندوق اٹھانے نہیں گیا تھا، وہ پیغام دینے گیا تھا۔ وہ اس ریاست سے مخاطب ہونا چاہتا تھا جو صرف بندوق کی زبان میں سننے کی عادی ہے۔ وہ چیخ کر نہیں، نظریاتی پختگی سے کہنا چاہتا تھا کہ ہم ابھی زندہ ہیں، اور ہم اس وقت تک لڑیں گے جب تک جینے کے حق کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ صفیان جانتا تھا کہ یہ لڑائی صرف زمین کی نہیں، یہ زبان، ثقافت، تاریخ، شناخت، اور وجود کی لڑائی ہے اور ایسی جنگیں وقتی فتح یا شکست سے طے نہیں ہوتے ہیں۔ وہ وقت کی پرتوں میں دفن ہو کر بھی اپنی معنویت قائم رکھتی ہیں۔
صفیان کرد آج اگر جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں، تو وہ سوال ضرور وجود رکھتا ہے جو اس نے اپنی مزاحمت سے اٹھایا۔ وہ مثال زندہ ہے جو اس نے قائم کی، وہ ورثہ زندہ ہے جو اس نے چھوڑا۔ صفیان کی بندوق اگر خاموش بھی ہو گئی ہو، تو اس کی گونج آج بھی ان نوجوانوں کے دلوں میں سنائی دیتی ہے جو پہاڑوں میں، کلاس رومز میں، سوشل میڈیا پر، یا خاموش آنکھوں میں بلوچ سوال اٹھا رہے ہیں۔
اس کے بعد بھی اگر ہم صفیان کرد کو محض ایک ناراض طالبعلم یا شدت پسند قرار دیں، تو یہ صرف اس کی نہیں، بلکہ اپنے شعور کی توہین ہو گی۔ صفیان کرد ایک فرد کا نام نہیں۔۔۔ وہ ایک باشعور نسل کی نمائندگی ہے، جو فیصلہ کر چکی ہے کہ خاموشی اب جرم ہے، اور مزاحمت فرض۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔