قرآن و حدیث کی روشنی میں قابض ریاست کے خلاف مزاحمت کا حق
تحریر: جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان پر ریاستِ پاکستان کی قابض افواج کی تعداد کا درست اندازہ موجود نہیں، تاہم ایف سی اور ریگولر آرمی کو ملا کر یہ تعداد کم از کم پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ آرمی اور ایف سی کی موجودگی کا مقصد بلوچستان پر قابض پاکستان کی غیر قانونی قبضہ گیریت کو بزور طاقت اور قوت برقرار رکھنا ہے جس کے لیے طاقت کا ہر ناجائز استعمال جائز اور قانونی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ غیر قانونی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں، اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں صرف گزشتہ بیس سالوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔
اگر پاکستان کی قبضہ گیریت کی پچھتر سالہ تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ نہایت ہوشربا ہے۔ قابض ریاست کو بلوچستان میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے صرف ایف سی اور آرمی کی سہولت حاصل نہیں بلکہ گزشتہ بیس سال کی اپنی آنکھوں دیکھی تاریخ میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کا ہر طبقہ، عام پنجاپی شہری سے لے کر ریاستی دانشور، صحافی، اور میڈیا تک اس قبضے کے سہولت کار ہیں۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی ریاست کا ہر پنجابی شہری ماسوائے چند باضمیر انسانوں کے جو جبر کو جبر کہہ کر پکارتے ہیں. فوجی جبر کو نہ صرف جائز سمجھتا ہے بلکہ اپنی قابض فوج کو بلوچستان میں مزید تشدد پر اکساتا ہے۔
اس کا عملی مظاہرہ سوشل میڈیا پر روزانہ یا جب کبھی اسلام آباد وغیرہ میں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا جاتا ہے دیکھا جا سکتا ہے۔ پنجابی میڈیا پرسنز کے رویے اور کاؤنٹر احتجاج کی صورت میں یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے، جیسا کہ حالیہ دنوں میں اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دیکھا گیا جب پرامن بلوچ مظاہرین کے مقابلے میں پنجاپی ریاست نے ایک گمنام احتجاج ریکارڈ کرنے کی کوشش کی تاکہ توجہ کو بانٹا جاسکے اس کام میں قابض ریاست کو میڈیا اور پنجاپی دانشور کے ساتھ سوشل میڈیا پر بیٹھا عام پنجاپی کی حمایت حاصل تھی۔
اپنی زمین پر قبضہ گیریت کو چیلنج کرنے اور اپنے اوپر جبر کا جواب دینے کے قرآنی احکام نہایت واضح ہیں۔ ذیل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ھم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مظلوم کو ظلم کے خلاف کیا ترغیب دیتا ہے۔
1. سورۃ الحج (22:39)
“اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ”
ترجمہ: “اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو (جنگ کی) جن پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اللہ ان کی مدد پر ضرور قادر ہے۔
قرآن کی اس آیت مبارکہ میں مظلوموں کو دفاعی جنگ کی اجازت دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ یہاں کسی مخصوص قوم یا گروہ کو مخاطب نہیں کیا گیا بلکہ تمام مظلوم انسان مخاطب ہیں۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان بھی ایک مقبوضہ حیثیت سے جنگ لڑ کر اپنی آزادی حاصل کرنے کا شرعی و فطری حق رکھتا ہے۔
2. سورۃ البقرہ (2:190)
“وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ”
ترجمہ: “اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔”
ان دونوں آیات مبارکہ میں قابض یا حملہ آور افواج کے خلاف دفاعی کارروائی کو قرآن کی روشنی میں جائز قرار دیا گیا ہے۔
احادیث کی روشنی میں۔
قرآن کے بعد اسلامی ہدایت کا دوسرا اہم ذریعہ احادیث مبارکہ ہیں جن کی روشنی میں ظلم کے خلاف ردعمل کا رخ واضح ہوتا ہے۔
1. حدیث: افضل الجهاد (صحیح بخاری / صحیح مسلم)
“أفضلُ الجهادِ كلمةُ عدلٍ عندَ سلطانٍ جائرٍ”
(سنن النسائی: 4209، سنن ابن ماجہ: 4011)
ترجمہ: “افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا ہے۔”
اگرچہ اس حدیث میں براہ راست مسلح جدوجہد کا ذکر نہیں، لیکن یہاں جبر اور ظلم کو للکارنے اور ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کہنے کی تلقین موجود ہے حتیٰ کہ اسے افضل جہاد قرار دیا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی مظلوم یا محکوم قوم کا اپنی آزادی کے لیے آواز بلند کرنا اسلامی تعلیمات کے مطابق افضل ترین عمل ہے۔
2. حدیث: دفاعی جہاد اور شہادت (صحیح مسلم)
“مَن قُتِلَ دُونَ مالِهِ فَهو شَهِيدٌ، ومَن قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهو شَهِيدٌ، ومَن قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهو شَهِيدٌ، ومَن قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهو شَهِيدٌ”
(صحیح مسلم: 141)
ترجمہ: “جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے، وہ شہید ہے؛ جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو، وہ شہید ہے؛ جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو، وہ شہید ہے؛ اور جو اپنے اہل (عزیزوں) کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو، وہ بھی شہید ہے۔”
یہ حدیث واضح طور پر اس بات کو بیان کرتی ہے کہ اگر کوئی قوم یا فرد اپنے مال، دین، جان یا اہل و عیال کی حفاظت میں قتل ہو تو وہ شہادت کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ قابض قوت کے خلاف مزاحمت میں جان کا نذرانہ دینے والوں کو اسلام شہید قرار دیتا ہے۔
ان آیات و احادیث کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی جابر اور قابض کے سامنے اپنی آزادی کا پرامن یا مسلح مطالبہ کرنا شرعاً درست اور انسانیت کے اصولوں کے مطابق جائز ہے۔
اس سے عیاں ہوتا ہے کہ مقبوضہ بلوچستان کی پرامن یا پر تشدد آزادی کی تحریک ہر دو صورتوں میں جائز اور برحق ہے۔ بلوچستان کے ہر شخص پر قابض پاکستان کے خلاف اپنی آزادی کے لیے مزاحمت کا ہر شکل اور ہر دستیاب طریقہ فرض ہے، چونکہ قابض کا ہر شہری اپنے افواج کا سہولت کار یا بلوچستان کی آزادی کا مخالف ہے میرے نزدیک ان کے خلاف مسلح مزاحمت اور ان کا قتال شرعی اور سماجی صورت میں جائز ہے۔ میرا بلوچ مسلح جہدکاروں سے مطالبہ ہے کہ وہ قابض پاکستان کی فوج کے ساتھ ساتھ ان کے ہر پنجاپی سہولت کار پر بھی حملہ کریں۔
اس کا جائز صورت یہ ہے کہ جب کبھی بلوچ مزاحمت کار پاکستان کی قبضہ گیر فوج پر حملہ کرتے ہیں اور انہیں جانی نقصان پہنچاتے ہیں تو پنجاپی صحافی اور دانش ور جو بلاشبہ عام پنجاپی شہری کا نمائندہ ہے اپنے مردہ فوجی اہلکاروں کی شناخت چھپانے میں فوج کا ہمنوا بن جاتے ہیں ان مردہ فوجیوں کو کبھی مسافر تو کبھی مزدور بنانے کی مشترکہ گردان گردا کر سچ کو جھوٹ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور عام دنیا والوں کو گمراہ کرنے کی کوشش میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو کسی سماجی و لسانی تعصب کے بغیر ان کا ایک صورت میں حق بھی ہے کیونکہ پاکستان قابض سہی پر ان کا ملک ہے۔
اس لیے ہر بلوچ کو اسی طرح اپنے وطن کے لیے اپنا مزاحمتی حق حاصل ہے۔ جرنیل استاد اسلم بلوچ نے ایک مدت پہلے کہا تھا کہ ہم بلوچ مزاحمت کو ہر پنجاپی کے گھر تک پہنچاسکتے ہیں تب جاکر انہیں احساس ہوگا اسی طرح چند سال پہلے چیئرمین بشیر زیب بھی ایک ویڈیو پیغام میں کچھ ایسا ہی کہتے سنے جاسکتے ہیں۔ یہ بہتر ہے کہ پنجاپی فوج کو مزدور و مسافر کہہ کر دنیا کو گمراہ کرنے کی پنجاپی کوشش کو حقیقی معنوں میں عام پنجاپی جو بحرحال اپنی فوج کا سہولت کار ہے سزا دی جائے اور ان سے وہہی سلوک کیا جائے جو ایک پنجاپی فوجی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔