قاضی — وہ جو مٹی میں جلتا چراغ تھا
تحریر: اشنام بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کہاں سے لکھوں؟
کیسے بتاؤں؟
کون سا قلم ہو جو لہو کی حرارت کو چھو سکے؟
کون سی روشنائی ہو جو ایک سوچ کی روشنی بن سکے؟
یہ کوئی داستانِ فرد نہیں،
یہ ایک قبیلے کی چیخ ہے، ایک قوم کا خواب ہے،
یہ خون میں بھیگے ہوئے نظریے کا وہ حوالہ ہے
جس نے تاریخ کے سینے پر اپنا نام خراشوں میں لکھا!
قاضی… صرف ایک شخص نہیں تھا
وہ نہ بندوق کی آواز تھا، نہ جنگل کی گونج،
وہ اک فلسفہ تھا — جو گولی سے آگے کی بات کرتا تھا،
اک دعا تھا — جو ہتھیار میں پنہاں تھی،
اک قسم تھا — جو پتھروں پر کندہ تھی۔
وہ گوریلا تھا، مگر فکر کا۔
اس کے ہر قدم کے پیچھے
ایک نظریہ، ایک تدبیر، ایک بصیرت چلتی تھی۔
خضدار کی گلیوں میں جنم لینے والا وہ چراغ…
80 کی دھوپ میں آنکھ کھولی،
لیکن اس کی آنکھوں میں صدیاں بولتی تھیں۔
وہ بچہ نہیں تھا — وہ ازل کا قرض تھا، جو وفا کی شکل میں اترا
بلوچ گلزمین کی مٹی میں، جہاں لہو فصل بنتا ہے،
وہ شہیدوں کا وارث تھا،
جہاں باپ کی قبر، بھائیوں کی شہادت،
اور اپنے جسم کی بیماری —
سب نے مل کر ایک ناقابلِ شکست فکر کو جنم دیا۔
اور جب وہ بیمار ہوا…
تو جسم بستر پر جا گرا،
مگر روح محاذ پر کھڑی رہی،
نہ آہ، نہ شکوہ،
بس ساتھیوں کو حوصلہ،
تنظیم کو سمت،
اور قوم کو خواب دیتا رہا۔
بسترِ علالت پہ بھی قاضی زندہ تھا — زندہ تر!
قاضی — جس کا لہجہ نرم، اور فکر آتش فشاں
وہ بولتا،
تو لفظ زنجیریں توڑتے،
لہجے میں عاجزی،
لیکن مفہوم میں بغاوت،
اس کی ہر بات،
اک منشور، اک پیغام، اک انقلاب۔
نوجوان اس کے گرد جمع ہوتے،
اور وہ ان کے دلوں میں
قوم کی محبت، شہادت کی لگن، اور آزادی کی پیاس ڈال دیتا۔
اور پھر… وہ لمحہ آیا
26 جون 2025،
چراغ بجھ گیا۔
لیکن روشنی۔۔۔؟
وہ باقی رہی!
نہ جنازے کی چیخ، نہ علم کا شور،
بس اک خاموشی، جو پہاڑوں سے بھی اونچی تھی۔
قاضی گیا،
مگر پیچھے
ہزاروں قاضی چھوڑ گیا۔
قاضی باسط زہری…
تم نہیں گئے ہو،
تم ہر اس جوان کی نبض میں زندہ ہو
جو اپنی مٹی سے پیار کرتا ہے،
تم ہر اُس سوچ میں موجود ہو
جو غلامی کو گالی سمجھتی ہے۔
تم بجھے نہیں — تم سلگ گئے ہو،
اور ہم سب تمہارے الاؤ سے جل رہے ہیں!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔