غلامی اور زندگی کے درمیان ،ذیشان – کمال جلالی

26

غلامی اور زندگی کے درمیان ،ذیشان

تحریر: کمال جلالی

دی بلوچستان پوسٹ

جب کوئی زندگی کی بات کرتا ہے، تو دنیا کے بہت سے لوگوں کے ذہن میں ہنستی کھیلتی زندگی کا تصور آتا ہے، ایک ایسی زندگی جہاں خواب پروان چڑھتے ہیں، جہاں بچے اسکولوں میں پڑھتے، نوجوان مستقبل سنوارتے، اور بزرگ سکون سے جیون بسر کرتے ہیں۔ مگر بلوچ قوم کے لیے “زندگی” کا مطلب ان سب کے برعکس ہے۔ بلوچ کے تصورِ زندگی میں ہنسی کی کوئی جگہ نہیں، وہاں صرف چیخیں ہیں۔ وہاں ترقی کی بجائے تباہی ہے، وہاں خوابوں کی تعبیر کی بجائے اُن کے کچلے جانے کی آواز ہے۔ بلوچ کے سامنے وہی مناظر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر روح کانپ جائے، مسخ شدہ لاشیں، ماؤں کی چیخ، بہنوں کے درد ، اور بچوں کی آنکھوں میں جلتے وہ سوال جن کا کوئی جواب نہیں۔

یہ داستان محض ذیشان ظہیر بلوچ کی نہیں یہ ایک پوری قوم کا اجتماعی کرب ہے۔ ہر بلوچ نوجوان، ہر ماں، ہر باپ، ہر بچہ اس اذیت کا گواہ ہے جو اس ریاست نے اُن پر مسلط کی ہے۔ جب ہم ذیشان کی بات کرتے ہیں، تو گویا ہم پوری بلوچ قوم کی کہانی سناتے ہیں۔ ذیشان وہ نام ہے جو صرف ایک فرد کی شناخت نہیں، بلکہ ایک مزاحمت کی نشانی ہے۔

ذیشان صرف بارہ برس کا تھا جب ریاستِ پاکستان کے عسکری اداروں نے اُس کے والد ظہیر بلوچ کو اغوا کر لیا۔ اُس عمر میں جب بچے کتابوں، کھلونوں اور کارٹونوں میں خوشیاں ڈھونڈتے ہیں، ذیشان نے احتجاجی کیمپوں میں دن اور رات گزارے۔ اُس کے ہاتھ میں کتاب کی بجائے ظہیر کی تصویر تھی۔ اُس کے خوابوں میں بابا کی واپسی کی جھلک تھی۔ ہر دن وہ دروازے کی طرف دیکھتا، ہر رات آنکھوں میں یہ امید لے کر سوتا کہ کل شاید بابا آ جائیں، شاید ریاست کو رحم آ جائے۔ مگر اُس معصوم دل کو ریاست نے صرف انتظار دیا، صبر کا زہر پلایا، اور آخر میں وہ تحفہ دیا جو بلوچوں کے حصے میں اکثر آتا ہے ایک گولی، ایک مسخ شدہ لاش، اور ایک خاموش قبر۔

ذیشان کا قتل کسی ایک نوجوان کی جان لینا نہیں تھا، یہ اُس نظریے کا گلا گھونٹنا تھا جو زندگی، آزادی اور مزاحمت کی بات کرتا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کیا نظریے گولیوں سے مر جاتے ہیں؟ کیا مزاحمت کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ نہیں۔ ذیشان آج بھی زندہ ہے ہر نعرے میں، ہر پوسٹر پر، ہر بلوچ دل کی دھڑکن میں۔ وہ ہماری یادوں میں نہیں، ہمارے وجود میں زندہ ہے۔ اُس کا لہو آج مٹی میں بولتا ہے، اور اُس کی خاموشی ہر لمحہ ریاستی ظلم کے خلاف ایک چیخ بن چکی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ اس کے قاتل کون ہیں۔ صرف وہ پنجابی فوجی نہیں جو بندوق لیے بلوچ سرزمین پر دندناتے پھرتے ہیں، بلکہ وہ ضمیر فروش بھی جو ہماری اپنی صفوں میں بیٹھے ہیں۔ جنہوں نے دولت کے چند ٹکوں کے عوض اپنی غیرت بیچ دی، اپنی زمین بیچ دی، اور دشمن کا آلہ کار بن گئے۔ وہ جو دشمن کے اشارے پر بلوچ نوجوانوں کی شناخت کرواتے ہیں، جنہوں نے اپنے بھائیوں کے خون کو بازار میں نیلام کر دیا وہ لوگ آج بھی عزت کے طلبگار ہیں۔ جو ذیشان کے قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہوں، وہ بلوچ نہیں ہو سکتے۔ وہ نہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، نہ ہمارے مستقبل کا۔

ان ضمیر فروشوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ استعمال شدہ ٹشو پیپر کی مانند ہیں جنہیں جب تک ضرورت ہو، استعمال کیا جاتا ہے، اور پھر بے رحمی سے پھینک دیا جاتا ہے۔ تاریخ ان کا چہرہ محفوظ رکھے گی، مگر عزت کے ساتھ نہیں شرم کے ساتھ، دھتکار کے ساتھ۔

یار ذیشان… تم بہت یاد آتے ہو۔ تمہاری وہ معصوم مسکراہٹ، تمہارے قہقہے، وہ شرارتی جملے، اور وہ خواب جو تم نے ہر روز میری آنکھوں میں دیکھے تھے۔ تم ناراض تھے کہ میں تمہیں چھوڑ کر آیا، مگر کیا کرتا؟ ہم چاہتے ہیں تم جیسے پھول آئندہ کبھی نہ مرجھائیں۔ میں تمہیں بتا نہ سکا کہ یہ جدائی ہماری بقاء کی جدوجہد کا حصہ ہے ۔اور ہاں ذیشان تمہارا جانا ہماری کمزوری نہیں، ہماری حوصلہ افزائی بن گیا ہے۔

یاد ہے، میں نے مذاق میں کہا تھا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، اور تم نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ “داڑھی آنے سے کوئی بوڑھا نہیں ہوتا” تُم مُجھ سے دو سال چھوٹے ہو اور تمہیں بہت کچھ کرنا ہے تُم نے مزاحمت کی راہ اختیار کی ہے، تمہیں جینا ہے، تمہیں قوم کو جگانا ہے۔ پھر مذاق میں کہا تھا کہ بوڑھے عمر سے نہیں، جذبے سے انسان زندہ ہوتا ہے۔یار یاد ہے سب باتیں ۔

میں وعدہ کرتا ہو، ذیشان، تمہارا خون صرف مٹی میں نہیں بہا وہ ہمارے ضمیر میں شامل ہو چکا ہے۔ تمہاری شہادت ہماری آنکھوں کی نیند چھین چکی ہے، اور ہم اس وقت تک نہیں رکیں گے، جب تک بلوچ کا ہر بیٹا آزادی کی سانس نہ لے سکے۔ جب تک اس دھرتی پر غلامی کے سائے باقی ہیں۔

ذیشان، تم واپس آؤ گے ہم جانتے ہیں۔ مگر زنجیروں کے ساتھ نہیں، گولیوں کے نشانوں کے ساتھ نہیں، بلکہ آزادی کی خوشبو کے ساتھ، فخر کے ساتھ، شان کے ساتھ۔ ہم تمہیں ویسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں جیسا تم پہلے تھے مسکراتے ہوئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔