عورت، سماجی پختگی اور مزاحمتی قوت
تحریر: ارشاد شمیم
دی بلوچستان پوسٹ
کئی ناپختہ اور قدامت پسند سماجوں میں عورت کو مرد کے برابر تسلیم کرنا نہ صرف مشکل سمجھا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اسے مرد کی غیرت اور سماجی حیثیت کی توہین بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں عورت کا کردار محض گھر کی چار دیواری تک محدود کر دیا جاتا ہے، اور اسے سماجی، سیاسی اور فکری دھارے سے دور رکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، ایک پرعزم اور مزاحمت خیز سماج یہ ثابت کرتا ہے کہ عورت اپنی بھرپور صلاحیتوں، جذبات و احساسات، گہرے سیاسی و سماجی شعور، اور فکری و نظریاتی پختگیوں کے ساتھ مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر تاریخ رقم کر سکتی ہے۔ یہ وہ سماج ہے جو عورت کی حقیقی قدر کو پہچانتا ہے اور اسے ہر میدان میں آگے بڑھنے کے مساوی مواقع فراہم کرتا ہے۔
عورت کی یہ مزاحمتی قوت صرف عملی میدان تک ہی محدود نہیں بلکہ اسے ادب میں بھی بخوبی دکھایا گیا ہے۔ میکسم گورکی کا شہرہ آفاق ناول “ماں” اس کی بہترین مثال ہے۔ اس تخیلاتی ناول میں پاول کی ماں، جو ایک عام گھریلو عورت ہے، اپنے مزاحمت کار بیٹے کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر نہ صرف اس کے نظریات کو سمجھتی ہے بلکہ مزاحمتی ادب کے پرچے تقسیم کرنے جیسے خطرناک عمل کو بھی سرانجام دیتی ہے۔ یہ کردار روسی مزاحمتی تحریک کی عکاسی کرتا ہے اور یہ دکھاتا ہے کہ ایک ماں کی محبت اور غیرت اسے کس طرح ایک انقلابی بننے پر مجبور کر سکتی ہے۔ وہ صرف ایک ماں نہیں بلکہ ایک مزاحمت کار ہے جو اپنے بیٹے کے مشن کو اپنا مشن بنا لیتی ہے اور اس کی جدوجہد میں مکمل طور پر شریک ہوتی ہے۔
عصر حاضر میں اگر ہم دیکھیں تو ہمیں بلوچستان کے مزاحمتی سماج میں بلوچ عورت کی حقیقی اور عملی مزاحمت کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ آج بلوچ عورت صرف تخیلاتی کردار نہیں بلکہ وہ حقیقت میں ایک مزاحمتی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ وہ اپنے حقوق کے لیے، اپنے سماج کی بقا کے لیے، اور اپنے آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے ہر ممکن جدوجہد کر رہی ہے۔ وہ نہ صرف تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہے بلکہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی میدانوں میں بھی اپنی بھرپور شرکت کو یقینی بنا رہی ہے۔ یہ مزاحمت نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی چیلنجوں کا بھی مقابلہ کرتی ہے، جہاں بلوچ عورت نہ صرف اپنے روایتی اقدار کو برقرار رکھتی ہے بلکہ جدید دنیا کے تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے۔
یہ بلوچ عورت اس بات کی زندہ مثال ہے کہ کس طرح ایک پختہ اور مزاحمتی سماج میں عورت کو اس کا جائز مقام ملتا ہے، اور وہ اپنے عزم و ہمت سے ناممکن کو ممکن بناتی ہے۔ یہ عورتیں آج دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ مضبوط اور باشعور عورتیں ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی کی ضامن ہوتی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔