شہید سنگت ہارون
تحریر: نقیب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شہید سنگت ہارون جان عرف دوستین بلوچ ایک یادگار کردار جو ہمیشہ ہمارے دلوں میں راج کرتا رہے گا۔ آپ ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتے تھے جہاں بےشعوری انتہا پر تھی اور کوئی ایسا نہ تھا جسے قومی غلامی کا احساس ہوتا۔ بے شعوری کے عالم سے اٹھ کر ایک شعوری فیصلہ لیا تھا۔ کم تعلیم ہونے کے باوجود بھی آپ انسانی فطرت اور جنگی اصولوں سے بخوبی واقف تھے۔
جب میں قومی فوج کا حصہ بنا تو میں نے آپ کے بہادری اور خوش مزاجی کے قصے بہت سنے تھے لیکن آپ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ آپ نے قومی غلامی کا احساس کیا تھا پر آپ کو قومی فوج میں شامل ہونے کے راستے نہیں مل رہے تھے۔ تو آپ نے اپنے دوست شہید رؤوف جان کے ساتھ فیصلہ کر لیا اور پہاڑوں میں سرمچاروں کو ڈھونڈنے نکل پڑے تھے اور ڈیڑھ سال مسلسل راستہ ڈھونڈنے اور کافی مشکلات کے بعد اپنی ایمانداری اور محنت کی وجہ سے دوستوں سے رابطہ ہوا تھا اور قومی فوج میں شامل ہوئے تھے۔
کچھ عرصے تک آپ شاری گوریلا کے طور پر کام کرتے رہے اور انتہائی سخت حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آپ نے پہاڑی محاذ سنبھال لیا اور کم وقت میں ایسی اعتماد قائم کی کہ آپ کو تنظیمی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ تب ہی سے آپ میدانِ جنگ میں ہمیشہ صفِ اوّل رہے اور دشمن کو کئی محاذوں پر شکست سے دوچار کیا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں دوستوں کے ساتھ سفر پر نکلا، مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں سنگت ہارون جان کے کیمپ جا رہا ہوں۔ دو دن کے سفر کے بعد جب ہم وہاں پہنچے تو چار سنگت آئے، اُن میں سے ایک لمبے بالوں والا بلند بالا سنگت جس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، جس سے سلام دعا ہوا وہ سادہ مزاج خوش اخلاق سنگت ہارون جان تھا۔ انہوں نے ہمارے لیے چائے بنائی اور پھر سالن پکانا شروع کیا۔ میں اُس کے پاس گیا ہاتھ بٹانے لگا، مجھے کہا، “نہیں سنگت، آپ تھک گئے ہو، آپ بیٹھیں مجلس کریں، میں خود کر لوں گا۔” اور ایسے ہی جو بھی کام ہوتا آپ پہل پہل رہتے تھے۔
میں تقریباً دو مہینوں تک سنگت کے ساتھ رہا۔ جب بھی آپ کسی کام سے جاتے تو مجھے ساتھ لے جاتے۔ مجھے بہت کچھ آپ سے سیکھنے کو ملا اور آپ ایک بہترین نشانہ باز بھی تھے۔ مجھے وہ سفر بھی یاد ہے جب ہمارے پاس کھانے پینے کو کچھ بھی نہ تھا، ہم بھوکے پیاسے تھے اور آپ حوصلہ دیتے رہے۔ تب جا کے کہیں پہنچے، کھانا کھا کر اپنے کَلی بھرنے کے بعد ہم آگے بڑھ گئے اور چاندنی رات میں سفر کرتے رہیں۔
اس سفر میں آپ نے شہید رؤوف جان کے قصے بھی کیے۔ کہیں درد و غم کے باوجود آپ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ آپ ہر مشکل کو ہنستے ہوئے سنبھالتے تھے جیسے آپ حوصلوں کے پہاڑ تھے۔ ہمیشہ ہمیں حوصلہ دیتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم کسی کام سے گئے تو آپ سب سے آگے تھے اور وہ کام آپ کی وجہ سے کامیابی سے ممکن ہوا اور آپ بہت خوش ہوئے۔
پھر رات کو بلوچی محفل ہوئی۔ آپ نے کہیں بلوچی گانے سنائے۔ آپ ہمیشہ چاندنی راتوں میں دیوان کرتے، گانے سناتے، ہمیں لطف اندوز کرتے اپنی نرم آواز سے۔
پھر کچھ وقت بعد ہماری تیاری کسی اور کام کے لیے ہوئی۔ کام سے کچھ گھنٹے پہلے ہم ساتھ بیٹھے تھے۔ آپ اپنی بندوق صاف کر رہے تھے اور مجھے ہنستے ہوئے کہا کہ جب جنگ سے واپس آئے تو پھر سے اپنے پہلے والے وِتاک جائیں گے، لیکن کسے پتہ تھا کہ یہ ہمارا آخری دیوان ہوگا۔ ہنسی مذاق، مجلس کے بعد اپنے کام کے لیے روانہ ہوئے۔
رات کو جب ہم وہاں پہنچے تو چاندنی رات میں 11 بجے جنگ شروع ہوئی جہاں ہر طرف گولے بارود کی گھنٹیاں تھیں۔ آپ یہاں بہ شہید سنگت ہارون جان عرف دوستین بلوچ ایک یادگار کردار جو ہمیشہ ہمارے دلوں میں راج کرتا رہے گا۔ آپ ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتے تھے جہاں بےشعوری انتہا پر تھی اور کوئی ایسا نہ تھا جسے قومی غلامی کا احساس ہوتا۔ بےشعوری کے عالم سے اٹھ کر ایک شعوری فیصلہ لیا تھا۔ کم تعلیم ہونے کے باوجود بھی آپ انسانی فطرت اور جنگی اصولوں سے بخوبی واقف تھے۔
جب میں قومی فوج کا حصہ بنا، میں نے آپ کے بہادری اور خوش مزاجی کے قصے بہت سنے تھے لیکن آپ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ آپ نے قومی غلامی کا احساس کیا تھا، پر آپ کو قومی فوج میں شامل ہونے کے راستے نہیں مل رہے تھے۔ تو آپ نے اپنے دوست شہید رؤوف جان کے ساتھ فیصلہ کر لیا اور پہاڑوں میں سرمچاروں کو ڈھونڈنے نکل پڑے تھے۔ اور ڈیڑھ سال مسلسل راستہ ڈھونڈنے اور کافی مشکلات کے بعد اپنی ایمانداری اور محنت کی وجہ سے دوستوں سے رابطہ ہوا تھا اور قومی فوج میں شامل ہوئے تھے۔
کچھ عرصے تک آپ شاری گوریلا کے طور پر کام کرتے رہے اور انتہائی سخت حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آپ نے پہاڑی محاذ سنبھال لیا اور کم وقت میں ایسی اعتماد قائم کی کہ آپ کو تنظیمی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ تب ہی سے آپ میدانِ جنگ میں ہمیشہ صفِ اوّل رہے اور دشمن کو کئی محاذوں پر شکست سے دوچار کیا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں دوستوں کے ساتھ سفر پر نکلا، مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں سنگت ہارون جان کے کیمپ جا رہا ہوں۔ دو دن کے سفر کے بعد جب ہم وہاں پہنچے تو چار سنگت آئے، اُن میں سے ایک لمبے بالوں والا بلند بالا دروبردار سنگت جس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، جس سے سلام دعا ہوا وہ سادہ مزاج خوش اخلاق سنگت ہارون جان تھا۔ انہوں نے ہمارے لیے چائے بنائی اور پھر سالن پکانا شروع کیا۔ میں اُس کے پاس گیا ہاتھ بٹانے لگا۔
مجھے کہاں نہیں سنگت، آپ تھک گئے ہو، آپ بیٹھیں مجلس کریں، میں خود کر لوں گا۔ اور ایسے ہی جو بھی کام ہوتا آپ پہل پہل رہتے تھے۔ میں قریباً دو مہینوں تک سنگت کے ساتھ رہا۔
جب بھی آپ کسی کام سے جاتے تو مجھے ساتھ لے جاتے۔ مجھے بہت کچھ آپ سے سیکھنے کو ملا اور آپ ایک بہترین نشانہ باز بھی تھے۔
مجھے وہ سفر بھی یاد ہے جب ہمارے پاس کھانے اور پینے کو کچھ بھی نہ تھا۔ ہم بھوکے پیاسے تھے اور آپ حوصلہ دیتے رہے۔ تب جا کے کہیں پہنچے، کھانا کھا کر اپنے کَلی بھرنے کے بعد ہم آگے بڑھ گئے اور چاندنی رات میں سفر کرتے رہے۔
اس سفر میں آپ نے شہید رؤوف جان کے قصے بھی کیے۔ کہیں درد و غم کے باوجود آپ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ آپ ہر مشکل کو ہنستے ہوئے سنبھالتے تھے جیسے آپ حوصلوں کے پہاڑ تھے۔ ہمیشہ ہمیں حوصلہ دیتے رہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب ہم کسی کام سے گئے تو آپ سب سے آگے تھے جیسے کسی خرما کی طرح اور وہ کام آپ ہی کی وجہ سے کامیابی سے ممکن ہوا اور آپ بہت خوش ہوئے۔
پھر رات کو بلوچی محفل ہوئی۔ آپ نے کہیں بلوچی گانے سنائے۔ آپ ہمیشہ چاندنی راتوں میں دیوان کرتے، گانے سناتے، ہمیں لطف اندوز کرتے اپنی نرم آواز سے۔
پھر کچھ وقت بعد ہماری تیاری کسی اور کام کے لیے ہوئی۔ کام سے کچھ گھنٹے پہلے ہم ساتھ بیٹھے تھے۔ آپ اپنی بندوق صاف کر رہے تھے اور مجھے ہنستے ہوئے کہا کہ جب جنگ سے واپس آئے تو پھر سے اپنے پہلے والے وِتاک جائیں گے، پر کسے پتہ تھا کہ یہ ہمارا آخری دیوان ہوگا۔
ہنسی مذاق، مجلس کے بعد اپنے کام کے لیے روانہ ہوئے اور رات کو جب ہم وہاں پہنچے تو چاندنی رات میں 11 بجے جنگ شروع ہوئی جہاں ہر طرف گولے بارود کی گن گرج تھے۔ آپ صفِ اوّل پر تھے۔ بے پرواہ جنگ میں مگن آگے بڑھتے رہے۔ اس تیز جنگ میں دو گھنٹوں تک لڑتے رہے اور کافی دشمنوں کو دھول چٹا دی۔ آپ زخمی ہوئے اور آخری سانسیں چلنے کے باوجود آپ مسکراتے رہے اور پھر شہید ہو کر تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئے۔
شہید کبھی مرتے نہیں، بلکہ امر ہو جاتے ہیں۔ آپ البتہ جسمانی طور پر ہم سے دور ہوئے، پر آپ کا فکر، آپ کا مقصد ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔ آپ ہر ایک فکری سنگت، ہر پہاڑی میں، آزاد چڑیوں میں اور چاند کی چاندنی میں ہمیں محسوس ہوتے ہو۔
اب آپ کی ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر ہیں، اور اپنے شہیدوں کے ارمانوں کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔