شہزاد بولان کے پُر خار رستوں کا شہزادہ
تحریر: شہسوار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انقلاب کے رستے میں شامل گہرے اور خاموش طبع لوگوں کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے ۔ یہ لوگ بظاہر سامنے تو نہیں آتے مگر اپنی ، سوچ، علم، تحریر یا بندوق کی گن گرج سے معاشرے میں تبدیلی کی بنیاد رکھتے ہیں۔ تنظیم سازی کے ذریعے لوگوں میں انقلاب کے سمت کا تعین کرتے ہیں۔ انقلابی تحریکوں میں ایسے گہرے اور خاموش طب لوگوں کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ مشکل اور کانٹوں بھرے رستوں سے گزر کر بھی ہمت نہیں ہارتے یہ لوگ مشکلات کو چیلنج سمجھ کر ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور ہر مشکل سے سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔
شہید شہزاد کا شمار بھی ایسے خاموش طب لوگوں میں ہوتا ہے جو بظاہر تو قلات کے تنگ گلیوں اور فٹبال گراونڈ میں ایک عام سے فرد تھا مگر اندر سے بولان کے پر خار رستوں کا ایک کھلاڑی تھا جس کی زندگی میں آسانیاں کم اور آزمائشیں زیادہ تھی مگر پھر بھی اس میں رکاوٹوں کو عبور کرنے ایک حوصلہ تھا۔
لیو ٹالسٹائی اپنے ناول “جنگ اور امن” (War and Peace) میں کہتے ہے “سب سے طاقتور جنگجو دو ہیں؛ وقت اور صبر” اگر بات پر غور کیا جائے تو اس بات کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی کہ شہزاد ہی صبر و وقت کا جنگو تھا۔
شہزاد کے ایک قریبی دوست چیئرمین کے مطابق شہزاد کا شخصیت بہت ہی گہرا اور پیچیدہ تھا وہ ہمیشہ کم بولتا اپنی سوچ اور جذبات دوسروں پر ظاہر ہونے نہیں دیتا تھا اس کے اندر بہت سی باتیں اور تجربات تھے جنہیں اس کے پر خار رستوں کے قریبی دوست اور سمجھدار لوگ ہی محسوس کرتے تھے ۔
شہزاد کے خاموشی میں ایک کہانی چھپا ہوا تھا وہ بے یار و مدد گار لوگوں کی مدد کرنا پسند کرتا تھا وہ اپنی مشکلات دوسروں کے سامنے کم ہی پیش کرتا اسی وجہ سے اس کے شخصیت میں ایک کشش اور راز چھپی ہوئی تھی ۔
“نپولین بوناپارٹ” (Napoleon Bonaparte) نے یورپ بھر میں آزادی کی نظریات کو فروغ دیا ان کی موت کے بعد بھی انہیں یورپ اور دنیا بھر میں ایک عظیم لیڈر اور رول ماڈل مانا جاتا ہے ایسے ہی شہید شہزاد نے بھی اپنی زندگی میں بلوچ طلباء کے لیے تعلیمی میدان میں آسانیاں پیدا کئے جن میں پولی ٹیکنک کالج اور بولان میڈیکل کالج سر فہرست ہے۔ شہزاد کے شہادت کے بعد ان کا فکر قلات کے عوام پر عیاں ہوا اور اہل علاقہ عورتوں اور بچوں تک نے شہزاد کو اپنا رول ماڈل مان کر اس رستے کا انتخاب کر لیا جو آج قلات کے سڑکوں پر عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کی شکل میں قلات زمین پر موجود ہیں۔
شہزاد خیالات اور جذبات کو دل میں رکھنے والا ایک شخصیت تھا وہ ایک ایسے رستے کا انتخاب کر چکا تھا جہاں فوراً ہی دوسروں پر بھروسہ نہیں کیا جاتا ۔ شہزاد جیسے لوگوں کی خاموشی میں عجیب سا راز اور سکون ہوتا ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ردعمل دینے کی بجائے گہرائی سے سوچتے ہیں۔
شہید شہزاد کے محنت اور لگن نے لیون ٹراٹسکی کی کتاب “انقلاب مسلسل” (Permanent Revolution) کی یہ بات ثابت کر دی کہ انقلاب صرف ایک مرحلے پر رک نہیں جاتا بلکہ یہ مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور مسلسل آگے بڑھتا ہے۔ جو قبل از شہزاد اور بعد از شہزاد عیاں ہے۔
چیئرمین کے مطابق شہزاد ایک انتہائی حساس ، سمجھدار اور وفادار شخصیت کے مالک تھے جنہیں پہلی مرتبہ میں نے تب محسوس کیا جہاں وہ پر خار رستوں کے سفر سے لوٹ کر آیا تھا جس کے لب خشک اور بدن تکاوٹ سے چور تھا جس کی آنکھوں میں اس کے سفر کا نقشہ عیاں تھا کہ شہزاد پر خار رستوں سے ہو کر آیا ہے اتنے ہی میں شہزاد نے مجھ سے ایک penadol ٹیبلٹ مانگا اور آرام کرنے کی خواہش کا اظہار کی جہاں مجھے پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ شہزاد ان پر خار رستوں کا کھلاڑی ہے جو مشکل اور کانٹوں بھرے رستوں سے گزر کر بھی نہیں ہارتے حتیٰ کہ اپنے جان کی پروا کیے بغیر ہر مشکل سے سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں اور مشکلات کو عبور کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
کہتے ہے شہزاد طوفان سے لڑ کر واپس آنے والا بلوچ قوم کا وہ فرزند تھا جس کے حوصلہ، قربانی اور جدوجہد کی کہانیوں کو سن کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شہزاد کے خاموشی کے پیچھے ایک پوری دنیا چپا ہو تھا جسے تلاش کر کے اسی راہ کو انتخاب کرنا ہمارا فرض بنتا ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔