شور پارود کا سپاہی، شہید جنید جان – بشام بلوچ

256

شور پارود کا سپاہی، شہید جنید جان

تحریر: بشام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید جنید جان ایک خوش مزاج روشن چہرہ اور مجلس کرنے والے ساتھی تھے۔ شہید بہت ہی کم عمر میں جہدِ آزادی کے کارواں میں شامل ہوئے۔ اس عمر میں دوسرے جوان تعلیم حاصل کرنے یا کھیلنے کودنے میں مصروف ہوتے ہیں مگر شہید جنید اس عمر میں عظیم مقصد جہدِ آزادی سے منسلک رہے اور شہادت تک اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔

شہید جنید جان کا شہر سے پہاڑوں تک سفر بڑا مشکل رہا ہے۔ شہید کا تعلق ایک غریب فیملی سے تھا۔ آپ نے کم عمری میں روزگار کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھا لیا تھا۔ آپ کو جلد احساس ہوا کہ ہم سونا، چاندی سمیت بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہیں مگر پھر بھی در بدر کے ٹھوکرے کھانے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجہ غلامی ہے۔ ہم پر پنجاب ریاست کا قبضہ ہے تو کیوں نہ ہم ایسے شہادت کا انتخاب کریں جو ہمیں ہمیشہ کیلئے تاریخ کے پنوں میں زندہ رکھے۔ شہید جنید نے اپنے چند فکری دوستوں کے ساتھ پہاڑوں پر جانے کا فیصلہ کیا مگر پہاڑوں کے دوستوں (سرمچار) کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے شہید جنید نے اپنے دوستوں کے ساتھ شور کے پہاڑوں پہ جانے کا اور بلوچ سرمچاروں کو تلاش کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

خیر، دن گزرتے گئے اور وہ دن آگیا جب شہید اور ان کے دوستوں نے گدھے اور کچھ خورد نوشی راشن کا بندوبست کر کے شور کے پہاڑوں کی طرف اپنے سفر کا آغاز کردیا۔

پانچ دن مسلسل سفر کرنے کے بعد ان کے خورد نوشی کا سامان ختم ہو چکا تھا مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ بھوک کے ساتھ آگے اپنے سفر جاری رکھا۔ بلوچی میں کہتے ہیں: “نیت ساپ بیت، منزل آسان بیت” اور آخر پانچویں دن کی رات انہیں وطن کے شہزادوں کی ملاقات نصیب ہوئی۔ تنظیمی دوستوں نے انہیں تنظیم کے ایک سائیڈی گشتی اوتاک میں لایا۔

خیر، سوال اور تفتیش شروع ہوئی۔ آخر کار دوستوں نے شہید اور ان کے دوستوں سے کہا کہ آپ لوگ واپس جاؤ، دو تین مہینے کے بعد آپ لوگوں کو پھر بلایا جائے گا، مگر انہیں موت منظور تھی مگر واپس جانا نہیں تھا۔

شہید جنید نے کہا واپسی مجھے موت قبول ہے مگر جانا نہیں۔ وہ 18 سال کا لڑکا چٹھان کی طرح مضبوط تھا۔ ان کے حوصلے راسکوہ کی پہاڑوں کی طرح بلند تھے۔

تنظیمی اصولوں کے تحت انہیں ایک مہینے تک سائیڈ کیمپ میں رکھا گیا جہاں ان کے چال چلن دیکھنے سمیت انٹیلی جنس سے کلئرینس معلومات لی گئی۔

شہید جنید کو جب ٹریننگ کیمپ لایا گیا تو میری ملاقات ہوئی۔ اس وقت وہ کافی چھوٹے تھے مگر چالاک اور ہر ایک دوست کے کاموں میں مدد کرتے تھے۔ رات کو جب محفل لگتی تو گانا گاتے تھے اور ہنسی مذاق کرتے تھے اس لیے جلد ہی میرا واقفیت ہوا جو اپنے سارے قصے مجھ سے بیان کرتے کہ کیسے ہم نے کتنے درد سہے ہیں، دوستوں کو ڈھونڈنے اور شہر کے وہ سارے قصے بیان کرتے جو وہ در بدر ہوئے تھے اور مشکلات سے گزرے تھے۔

پھر تنظیمی کام کے سلسلے میں ہمیں کسی اور جگہ جانا پڑا۔ میں اور کچھ دوستوں نے شور کے چشموں، پہاڑوں اور دوستوں کو عارضی طور پر رخصت کیا۔ پھر کئی مہینے تک ہم نے شہید جنید جان کو نہیں دیکھا۔ وقت گزرتا گیا اور ہم نئے علاقے میں اپنے کاموں میں مصروف ہوئے۔

آخر وہ وقت آیا جب سوراب آپریشن کے وقت میں ہم دوستوں کے ساتھ یکجا ہوئے اور شہید جنید جان بھی دوستوں کے ہمراہ تھے۔ وہ کافی بدل گئے تھے، پہلے سے زیادہ مضبوط اور بال بھی تھوڑے بہت بڑے تھے۔ میں نے ہنسی مذاق میں ان سے کہا اپنے بال میچنگ والا بناؤ۔ انہوں نے بھی مسکرا کر کہا پہاڑوں میں ہمیں دیکھنے والا کون ہے۔

جب سوراب آپریشن، گدر میں پاکستانی فوجی کیمپ پر بی ایل اے کا آپریشن شروع ہوا، جھڑپ جاری تھی۔ شہر میں وطن کے جانبازوں کے نکلے ہوئے بندوق کی گولیوں اور بارود کی بو ہر طرف پھیل رہی تھی۔ گدر میں وطن کے جانباز تاریخ لکھ رہے تھے۔ وہاں کے باسی اپنے محافظوں کے لیے دعا مانگ رہے تھے۔ سوراب سے آنے والی فوج کی مدد پر وطن کے شہزادے گولی کی برسات میں مصروف تھے۔ کئی فوجی اہلکار مردار ہوئے تھے۔ ہر گلی، ہر کوچے میں وطن کے محافظ گشت کر رہے تھے۔ وہاں گدر کیمپ پر حملہ شدت اختیار کر چکا تھا۔ کئی بزدل فوجی اپنے کیمپ چھوڑ کر فرار ہوئے کیونکہ ایک کرایے کی فوج ان فکری سرمچاروں کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتی جنہیں اپنے وطن، اپنے سرزمین سے اتنا عشق ہے کہ وہ ایک پل بھی نہیں سوچتے اور اپنے آپ کو قربان کر دیتے ہیں۔

یکدم مخابرے میں آواز آئی کہ شہید دوستین جان جھڑپ میں شہید ہوئے ہیں۔ شہید دوستین جان جیسے ہستی پر لکھنا مجھ پر ادھار ہے۔ وہ ہمیشہ سایے کی طرح میرے ہمراہ رہے ہیں۔ ان کے کردار بیان کرنا مجھ پر قرض ہے۔ زندگی نے وفا کیا ہے، ان کے کردار اور جفاکشی ضرور قوم کے سامنے لاؤں گا۔

جبکہ جھڑپ میں زخمی جوانسال جنید بھی ہمیں پانچ روز بعد رخصتِ اوارن کہہ کر ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوئے اور تاریخ کے پنوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے، مگر ان کے فکر، سوچ اور کردار ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔