سوالوں سے آگے کا سفر
تحریر: سفر خان بلوچ (آسگال)
دی بلوچستان پوسٹ
ہر عہد کی تاریکی میں کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں جو شعلہ بن کر انسانی شعور کو روشن کرتے ہیں۔ جب انسان ظلم، جبر، اور ناانصافی کی دھند میں آنکھ کھولتا ہے، تو سب سے پہلے جس حقیقت سے اس کا سامنا ہوتا ہے، وہ بیرونی دنیا نہیں بلکہ اس کے اندر کا سوالی ذہن ہوتا ہے۔ وہ ذہن جو پوچھتا ہے:
کیا ہو رہا ہے؟
کیوں ہو رہا ہے؟
اس کا حل کیسے ممکن ہے؟
یہ سوالات محض فکری تجسس نہیں بلکہ انسانی بیداری، اس کی فکری خودی، اور اس کے انقلابی شعور کی پہلی دستک ہوتے ہیں۔ یہی وہ سوالات ہیں جنہوں نے سقراط کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا، چی گویرا کو بولیویا کے جنگلات میں موت کو گلے لگانے پر آمادہ کیا۔
انسان جب شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلا سامنا انہی تین بنیادی سوالات سے ہوتا ہے — “کیا؟”، “کیوں؟”، اور “کیسے؟”
یہ سوالات انسانی عقل کا فطری جزو ہیں، اور ہر ذی شعور فرد اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ان سے گزرتا ہے۔ یہ سوالات اتنے بنیادی ہیں کہ پوری فلسفے کی تاریخ انہی کے گرد گھومتی ہے۔
“کیا” کا سوال ہمیں حقیقت، وجود، اور شے کی ماہیت سے جوڑتا ہے۔ افلاطون نے اسے “مثالیات” کی صورت میں بیان کیا، جبکہ ارسطو نے “جوہر” کے تصور کے ذریعے اس کی عقلی تفہیم پیش کی۔
“کیوں” علت و غایت کا سوال ہے، جس پر سقراط نے اپنی تمام فکری کوشش مرکوز رکھی۔ اس نے انسان سے مطالبہ کیا کہ وہ صرف جئے نہیں، بلکہ سمجھے کہ وہ کیوں جی رہا ہے۔
“کیسے” کا سوال انسانی عمل، طریقہ کار، اور حکمت عملی سے متعلق ہے۔ ہیگل نے اپنی جدلیات میں اسے حقیقت کی متحرک اور عملی صورت قرار دیا۔ اس کے نزدیک، سچائی تبھی معتبر ہے جب وہ عمل میں ڈھل جائے۔
یہ سوالات انسان کو ایک ایسے دائرے میں لے آتے ہیں جہاں رکنا ممکن ہے، مگر نکلنا ناگزیر
یہ فکری سوالات اگرچہ شعور کی طرف پہلا قدم ہوتے ہیں، مگر اگر انسان ان میں ہی رک جائے تو یہی سوالات عمل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ایسے افراد ہر قدم پر خود سے یا دوسروں سے یہی سوال دہراتے رہتے ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے؟
کیوں کریں؟
کیسے ہوگا؟
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دلیل پر دلیل لاتے ہیں، مگر نتیجہ صفر رہتا ہے۔ وہ صرف فکری تسکین حاصل کرتے ہیں، مگر کسی عملی تبدیلی یا جدوجہد کا حصہ نہیں بن پاتے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں فلسفہ، اگر عمل میں نہ ڈھلے، تو جمود بن جاتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن شخصیات نے انقلابات برپا کیے، انہوں نے ان سوالات کو صرف سمجھا نہیں بلکہ عبور کیا۔ ان کے لیے مقصد واضح تھا، جواز مضبوط تھا، اور راستہ روشن۔ وہ ان سوالات کو بار بار دہرانے کے بجائے، ان کا جواب اپنے عمل سے دیتے گئے۔
ہیگل نے کہا تھا “سچائی، جب تک عمل نہ بن جائے، محض تصور ہے۔”
یہی سچ بلوچ جدوجہد کے عظیم کرداروں نے ثابت کیا ہے۔ بلوچ قومی تحریک کے کردار محض مزاحمت کار نہیں، بلکہ زندہ فلاسفر ہیں۔ ان کے لیے “کیا، کیوں، اور کیسے” صرف ایک بار کا مکالمہ تھے۔ مستقل الجھن کا عنوان نہیں۔
ہزاروں شہید اور ہزاروں گمنام جہدکاروں نے ان تین سوالات کو اپنی زندگی سے عبور کرکے بلوچ تاریخ میں نظریاتی روشنی بھری، وہ محض ردعمل یا جوش میں نہیں لڑے بلکہ مکمل شعوری، فلسفیانہ اور اخلاقی بیداری کے ساتھ اپنا راستہ چنا۔
آج بلوچ سماج میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ہر حکمت عملی، ہر فکری پیش رفت، اور ہر عملی اقدام پر انگلی اٹھاتا ہے۔ مگر جب ان سے خود سوال پوچھا جائے: “آپ کیا کر رہے ہیں؟” تو وہ خود انہی سوالات میں الجھے ہوئے ملتے ہیں۔
یہ لوگ ہر ناکامی کو “کیوں؟” کا پردہ دے دیتے ہیں، ہر کمزوری کو “کیا ہوگا؟” کے خدشے میں لپیٹ دیتے ہیں، اور ہر غیرحاضری کو “کیسے ہوگا؟” کے شک میں دفن کر دیتے ہیں۔
یہ تنقید کرتے ہیں مگر قربانی نہیں دیتے، سوچتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے، شعور کا دعویٰ کرتے ہیں مگر حقیقت میں بے عمل فکری قیدی بنے ہوتے ہیں۔
جبکہ وہ کردار، جو “کیا، کیوں، اور کیسے” سے آگے نکل چکے ہیں، وہ تاریخ لکھ رہے ہیں اور جو اب بھی ان سوالات میں پھنسے ہوئے ہیں، وہ صرف تبصرہ کر رہے ہیں۔
ان سوالات کو اکثر ایک فکری جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ عمل سے راہِ فرار اختیار کی جا سکے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کے عزم کو بھی شک کے دائرے میں لانا چاہتے ہیں تاکہ اپنی خاموشی کو جواز دے سکیں۔
اگر ہمیں واقعی شعور، فلسفہ، اور تبدیلی کی خواہش ہے، تو ہمیں ان سوالات کا سامنا کرنا ہوگا اور پھر ان سے آگے بڑھنا ہوگا۔
کیوں؟ کیونکہ غلامی، استحصال اور نسل کشی ہمارے وجود کو چیر رہی ہے۔ کیسے؟ فکری تعمیر، سیاسی عمل، مسلح مزاحمت، اور قربانی سے۔
یہی وہ شعوری راستہ ہے جو ہمیں فکری تکرار سے نکال کر عملی آزادی کی طرف لے جاتا ہے۔
فلسفہ وہی معتبر ہے جو زندہ ہو، جو عمل میں ڈھلے، اور جو صرف ذہنوں کو نہیں، دلوں اور بازوؤں کو بھی حرکت دے۔ بلوچ تحریک کے سچے کردار وہ ہیں جنہوں نے سقراط، کانٹ اور ہیگل کو محض پڑھا نہیں بلکہ ان سے آگے نکل کر اپنی زندگی کا فلسفہ خود رقم کیا وہ فلسفہ جو کتابوں میں نہیں، قبروں میں بولتا ہے، جو تقریروں میں نہیں، لہو میں روشن ہوتا ہے۔
جب تک ہم ان سوالات کو صرف دہراتے رہیں گے، ہم تاریخ کے حاشیے پر رہیں گے لیکن جس دن ہم ان کا جواب اپنی ہڈیوں، لہو، اور عزم سے دینا شروع کریں گے ہم خود تاریخ بن جائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔