سم ئنا اجازت ءِ نمے
تحریر: زہرا حسن
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں ایک دل خراش واقعہ پیش آیا، جہاں ایک نوجوان جوڑے کو صرف اس لیے بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کرنے کی جسارت کی تھی۔ یہ واقعہ نہ صرف ہمارے معاشرے کے گھٹن زدہ، تنگ نظر اور منافقانہ رویوں کو آشکار کرتا ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہم آج بھی ایک ایسے نظام میں جی رہے ہیں جہاں عورت کی مرضی، اس کا فیصلہ، اس کی آزادی، اور اس کا حقِ انتخاب گناہ سمجھا جاتا ہے اور اس گناہ کی سزا موت ہے۔
ہمارے معاشرے کے وہ لوگ جو خود کو “غیرت مند” کہلواتے ہیں، درحقیقت سب سے بڑے بے غیرت ہیں۔ یہ لوگ اتنے “غیرتمند” ہیں کہ بہن یا بیٹی اگر اپنی پسند سے شادی کرے تو اسے بےدردی سے مار دیتے ہیں، لیکن جب اسی بہن یا بیٹی کا وراثت میں حصہ دینے کا وقت آتا ہے تو یہ اپنی “غیرت” بھول جاتے ہیں۔ ان کی برتھ رجسٹریشن سب کچھ چھپا دیتے ہیں تاکہ انہیں قانونی طور پر جائیداد سے محروم رکھا جاسکے۔ ان کی تعلیم، صحت، اور آزادی پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک ایک عورت صرف خاندان کی عزت سے جڑی ایک “شے” ہے، نہ کہ ایک انسان جسے جینے، سوچنے، اور فیصلہ کرنے کا حق ہو۔
یہی لوگ خاندان سے باہر شادیاں کرنے کو غیرت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ گوارا نہیں کہ کوئی عورت اپنے لئے شوہر چنے، اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔ ان کے نزدیک عورت کی زندگی، اس کی محبت، اس کی خوشی سب کچھ خاندان کے مردوں کی مرضی سے مشروط ہے۔ اگر وہ اپنی مرضی سے جینا چاہے تو یہی لوگ قاضی بن کر فیصلہ صادر کرتے ہیں، اور جلاد بن کر اس فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہیں۔
بلوچستان میں پیش آنے والا یہ واقعہ کوئی پہلا نہیں اور بدقسمتی سے شاید آخری بھی نہ ہو۔ اس زمین پر عورت کو آج بھی اس کی مرضی کی سزا موت کی صورت میں دی جاتی ہے۔ ریاست، قانون، عدلیہ، اور مذہبی و سماجی ادارے سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کہیں غیرت کے نام پر قتل کرنے والے باعزت بھری ہو جاتے ہیں، کہیں عورت کی لاش کو دفنانے کے بجائے زمین سے مٹا دیا جاتا ہے، اور کہیں اس کے حق میں بولنے والوں کو بھی خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک؟ کب تک ہم عورت کے فیصلے کو بغاوت سمجھتے رہیں گے؟ کب تک اپنی مرضی کی شادی کو بے غیرتی سمجھا جاتا رہے گا؟ کب تک عورت کو جائیداد سے محروم رکھا جائے گا، اس کی زندگی پر مردوں کا حق چلتا رہے گا؟
ہمیں اب بطور معاشرہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس ظلم اور منافقت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں یا ایک ایسے نظام کے حق میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں جو ہر انسان چاہے مرد ہو یا عورت کو برابری، عزت اور آزادی دے۔ ورنہ یاد رکھیں، ہر قتل کے ساتھ ہماری خاموشی بھی جرم بنتی جارہی ہے، اور ہر بےگناہ خون ہماری زمین پر عدل کے قیام کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم جھوٹی غیرت کے بت توڑیں، اور سچ، انصاف، اور انسانیت کے ساتھ کھڑے ہوں ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں نہ معاف کریں گی، نہ یاد رکھیں گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔