بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ میڈیا کو بھیجے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ روز آپریشن بام کے دوران سرہ ڈاکئی میں دو مسافر بسوں سے فوج اور انٹیلیجنس کے 9 اہلکاروں کو ان کی سکیورٹی اداروں سے وابستگی کی شناخت کے بنیاد پر اتار کر قتل کئے جانے کی واقع کے خلاف قابض پاکستانی فوج، اس کے آلہ کاروں اور ریاستی میڈیا کی چیخ و پکار سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے دشمن کو کتنا کاری ضرب لگایا ہے۔
بی ایل ایف ترجمان نے کہا گزشتہ روز سے قابض فوج اس کی داشتہ میڈیا اور ان کے دلال شور مچا رہے ہیں کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے عام مسافروں کو محض پنجابی ہونے کی بنیاد پر اتار کر قتل کیا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے وہ سب کے سب افراد فوج اور انٹیلی جنس کے اہلکار تھے جن کے بارے میں بی ایل ایف کی انٹیلیجنس ونگ کے پاس پہلے ہی سے ثبوت اور معلومات تھا اور بی ایل ایف کی انٹیلیجنس ونگ نے قابض فوج اور انٹیلیجنس اداروں کی اہلکاروں کے بارے میں حاصل معلومات کو آپریشن بام میں حصہ لینے والے آپریشنل یونٹس کو فراہم کیا تھا جس کی بنیاد پر سرہ ڈاکئی کے مقام پر تلاشی کے دوران دو بسوں میں اُن 9 اہلکاروں کی شناخت ہوئی اور انھیں بسوں سے اتار کر کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔
میجر گہرام بلوچ نے کہا اب قابض فوج اور اس کے ایجنٹ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی غرض سے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے قتل ہونے والے اپنے اہلکاروں کو عام مسافر بتا رہے ہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ بی بی سی اردو سمیت ابلاغ عامہ کے کئی ادارے بلا تحقیق ریاست پاکستان کے اس یکطرفہ جھوٹ کو من و عن پھیلانے میں حصہ لے کر اپنے غیر جانبداری اور ساکھ پر سوالیہ نشان چھوڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا یہ بات اہم ہے کہ آپریشن بام کے دوران پورے بلوچستان میں سینکڑوں مسافر بسوں، ویگنوں اور ہزاروں دیگر گاڑیوں کو بی ایل ایف کے سرمچاروں نے شاہراہوں پر ناکہ بندی کے دوران روک کر ان کی تلاشی لی جن میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد سفر کرتے ہوئے پائے گئے مگر ریاستی جھوٹے پروپیگنڈے کے برعکس ان میں سے کسی کو بھی ان کی علاقائی یا نسلی شناخت کی بنیاد پر کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا بلکہ انھیں ان کے منزل کی طرف جانے دیا گیا۔
ترجمان کے مطابق سرہ ڈاکئی کے مقام پر دو بسوں سے تلاشی کے دوران 9 افراد کی شناخت بطور فوج اور انٹیلیجنس اہلکار ہوئی تو سرمچاروں نے انھیں اتار کر قتل کردیا، وہ عام مسافر یا پنجابی مزدور نہیں تھے بلکہ عام مسافروں کے بھیس میں فوج اور خفیہ اداروں کے بھیڑیئے تھے جو بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیوں اور دوسرے جنگی جرائم کے مجرم تھے۔
بی ایل ایف ترجمان نے کہا ہم اس بیان کے ذریعے متعصب پاکستانیوں بالخصوص پنجابی عوام کے سامنے کوئی صفائی پیش نہیں کر رہے ہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی پاکستانی سازش اور جھوٹے پرپیگنڈہ کو بے نقاب کرنے کیلئے یہ وضاحتی بیان جاری کر رہے ہیں یہ جھوٹا پروپیگنڈہ بھی بلوچ تحریک آزادی کے خلاف قابض پاکستانی ریاست کی میڈیا وار کی ایک کڑی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا یہ بات بھی اہم ہے کہ بلوچستان میں نہ تو صنعتیں ہیں نہ کوئی بڑے شہر اور تجارتی مراکز یا روزگار کا کوئی ذریعہ ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس جنگ زدہ خطہ میں کوئی عام پنجابی کونسی مزدوری یا کاروبار کرنے آتا ہوگا؟ مگر اس کھلی حقیقت کے باوجود محو سفر سینکڑوں پنجابیوں کو بحفاظت جانے دیاگیا جن کے خلاف فوج یا انٹیلیجنس اداروں سے وابستگی کا ثبوت نہیں تھا۔
میجر گہرام بلوچ نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ انکے سرمچاروں نے کسی کو بھی اس کی علاقائی یانسلی شناخت اور شک کی بنیاد پر نقصان نہیں پہنچایا۔