بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں ذیشان ظہیر کے قتل کے خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے ریاستی دہشت گردی اور ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
ریلی کا انعقاد بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے زیر اہتمام کیا گیا، جس میں خواتین اور بچوں سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین نے شہید فدا چوک پر جمع ہو کر شرکت کی۔
اس موقع پر شرکاء کا کہنا تھا کہ آئے روز ذیشان ظہیر جیسے بلوچ نوجوانوں کو ماورائے عدالت، قانون اور آئین کے برخلاف جبری طور پر لاپتہ کرنے کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے، اور ایسے واقعات میں مسلسل شدت آ رہی ہے۔
شرکاء نے کہا کہ حالیہ دنوں میں مکران سے لے کر خضدار، مستونگ، خاران اور آواران سمیت بلوچستان کے متعدد علاقوں سے لوگوں کو سیکیورٹی فورسز نے گھروں سے اٹھایا، اور اگلے روز ان کی لاشیں پھینک دی گئیں۔ مشکے میں تو یہ معمول بن چکا ہے کہ شہریوں کو یا تو کیمپ بلا کر یا گھروں سے حراست میں لے کر قتل کر دیا جاتا ہے اور پھر ان کی لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔
بی وائی سی کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے ریاستی ایماء پر بی وائی سی کے خلاف کارروائیاں اس لیے کیں تاکہ بلوچستان میں ریاستی مظالم کو تیز کیا جا سکے اور ان کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہ ہو۔ لیکن بلوچ عوام اور بی وائی سی اپنے مزاحمتی عمل سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
بی وائی سی کی جانب سے ذیشان ظہیر کے بہیمانہ قتل کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے قبل تنظیم نے پنجگور اور کراچی میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالی تھیں۔
آج کراچی میں بی وائی سی کی احتجاجی ریلی کو پولیس کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا، جہاں پولیس نے تنظیم کی خاتون رہنماؤں سمیت متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے۔