ذیشان ظہیر قتل: بلوچستان کے مختلف شہروں میں مظاہرے و ہڑتال

38

ذیشان ظہیر کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف خاران، نوشکی، چاغی، دالبندین، نوکنڈی میں مظاہرے و ہڑتالیں کی گئی۔

پنجگور میں بی وائی سی کے زونل ممبر ذیشان ظہیر کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں اور شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔

مظاہرین صرف ذیشان ظہیر کے قتل، جبری گمشدگیوں اور بی وائی سی رہنماؤں کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں، جس میں بڑی تعداد میں شہری شریک ہیں۔

گذشتہ روز 3 جولائی کو بلوچستان کے ضلع خاران میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر ذیشان ظہیر کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی جہاں مظاہرین نے ریاستی پالیسیوں کے خلاف نعرے بازی کی اور کہا کہ ذیشان کے والد 2015 سے جبری طور پر لاپتہ ہیں، اور ان کی بازیابی کو یقینی بنانے کے بجائے ریاست نے ان کے بیٹے کی لاش واپس کردی۔

مظاہرین نے کہا ذیشان ظہیر کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا جو کہ ایک ناقابل معافی ظلم ہے۔

اسی نوعیت کی ایک اور بڑی احتجاجی ریلی آج نوشکی میں نکالی گئی، جہاں بی وائی سی کے کارکنوں، شہریوں اور طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

مقررین نے ذیشان کے قتل کو ریاستی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کے خاندانوں کو انصاف کے بجائے مزید صدمے دیے جا رہے ہیں۔

دریں اثناء، بی وائی سی کی اپیل پر آج چاغی، نوکنڈی اور دالبندین کے مختلف علاقوں میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی جس کے باعث مارکیٹیں، دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے۔

ذیشان اظہر کے قتل کے خلاف بی وائی سی کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جہاں اس سے قبل تنظیم کی جانب سے بلوچستان کے شہر پنجگور، تربت اور کراچی میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔

گذشتہ روز احتجاج کے دوران کراچی میں پولیس نے مظاہرین پر دھاوا بولتے ہوئے بی وائی سی کے کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا جنھیں بعد ازاں رہا کردیا گیا ہے۔

اس حوالے سے بی وائی سی کا کہنا تھا بروز ذیشان ظہیر جیسے نوجوانوں کو ماورائے عدالت، آئین و قانون کے برخلاف جبری طور پر لاپتہ کرنے اور قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں مکران، خضدار، مستونگ، خاران اور آواران سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں سے شہریوں کو سیکیورٹی فورسز نے گھروں سے اٹھایا اور اگلے روز ان کی لاشیں پھینک دی گئیں اور مشکے جیسے علاقوں میں تو یہ معمول بن چکا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ریاستی ایماء پر بی وائی سی کے خلاف کارروائیاں صرف اس لیے کی جا رہی ہیں تاکہ بلوچستان میں ریاستی مظالم کو مزید تیز کیا جا سکے اور مزاحمتی آوازوں کو دبایا جا سکے، تاہم بی وائی سی اور بلوچ عوام اپنے حق کے لیے جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اپنے مزاحمتی عمل کو جاری رکھیں گے۔