ذیشان ظہیر: خاموش مزاحمت کا روشن چراغ – داد جان بلوچ

15

ذیشان ظہیر: خاموش مزاحمت کا روشن چراغ

تحریر: داد جان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی سرزمین پر ریت، خون اور آنسو ایک ساتھ بہتے ہیں۔ یہاں کے پہاڑ گواہ ہیں اُن ماؤں کی چیخوں کے، جنہوں نے بیٹوں کے سائے کو دفن ہوتے دیکھا؛ اُن بہنوں کے سسکیوں کے، جو صبح کا سورج کسی نئی جدائی کے خوف سے دیکھتی ہیں؛ اور اُن بچوں کے سہمے وجود کے، جنہوں نے بچپن میں ہی موت اور جدائی کے فلسفے سیکھ لیے۔ انہی چیخوں میں ذیشان ظہیر کا ایک نام اب صداؤں میں گونج رہا ہے۔

ذیشان ایک عام سا بچہ تھا۔ ایک ایسا بچہ جو اسکول میں پڑھتا، شام کو فٹبال کھیلتا، دوستوں کے ساتھ ہنستا، اور ماں کے ہاتھ سے نرمی سے کھانا کھاتا تھا۔ لیکن ایک دن سب کچھ بدل گیا۔ اُس کے باپ ظہیر احمد کو ریاستی ادارے لے گئے بغیر وارنٹ، بغیر عدالت، بغیر واپسی۔ ذیشان نے اُس دن بچپن دفنا دیا۔

وہ فقط دس سال کا تھا، مگر اُس کی آنکھوں میں ایک غیر معمولی خاموشی اتر آئی۔ اُس دن کے بعد نہ وہ بچہ رہا، نہ خواب ویسے رہے۔ اُس نے اسکول کے بستے کے ساتھ اب ماں کا دکھ، بہنوں کی فکر اور باپ کی گمشدگی کا سوال اٹھانا شروع کیا۔ وہ صرف بڑا نہیں ہوا، بلکہ ذمہ دار، باشعور، اور زندگی کے تلخ فلسفے کو بھ وہ سمجھ گیا۔

ذیشان کو کسی سیاسی مفاد سے دلچسپی نہ تھی۔ اُس کی سیاست صرف اتنی تھی کہ “میرے بابا کہاں ہیں؟” بے گناہ لوگوں کو کیوں لاپتہ کررہے ہو جواب دو ! اس سوال کو لے کر وہ ہر احتجاج میں کھڑا رہا۔ سخت گرمی ہو یا سخت دھمکیاں، وہ پیچھے نہیں ہٹا۔ اُس نے مظاہروں میں بینر تھامے، سیمیناروں میں سچ بولا، اور ہر اسٹیج پر وہ سوال دہراتا رہا جو اس ریاست سے ہر بلوچ پوچھ رہا ہے
“میرے پیارے کہاں ہیں؟”

مگر اُس کی آواز ریاست کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ ریاست کو وہ سوال پسند نہیں جس میں سچ شامل ہو۔ اور ذیشان کے سوالوں میں صرف سچ تھا، خاموش مگر کاٹ دار سچ۔

ذیشان کی زندگی فقط احتجاج نہیں تھی، وہ ایک پورے خاندان کا سہارا تھا۔ اُس نے مزدوری کی، بچوں کو ٹیوشن پڑھایا، کبھی رات بھر کام کیا تاکہ بہنوں کی فیس ادا ہو جائے، اور صبح پھر مظاہرے میں شریک ہوا۔ وہ ماں کی آنکھوں کا سکون تھا، جس نے شوہر کی جدائی سہہ لی مگر بیٹے کے لمس سے جڑی رہی۔

بہنیں اُسے صرف بھائی نہیں، باپ سمجھتی تھیں۔ جب بھی کوئی خوف دروازے پر دستک دیتا، ذیشان دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا۔ اُس کے مسکرانے کا انداز، اُس کے نرم لہجے، اور اُس کے پرانے کپڑوں میں چھپا وقار — سب کچھ اب ایک خاموش کمرے کی دیواروں میں قید ہے۔

ذیشان گول کیپر تھا۔ وہ وار روکتا تھا جیسے وہ اپنی بہنوں کے خوابوں کی حفاظت کرتا، جیسے وہ اپنے خاندان پر آنے والی آندھیوں کو روکتا۔ فٹبال اُس کے لیے صرف کھیل نہیں، زندگی کا استعارہ تھی۔ اب اُس کا کلب بند ہے۔ گراونڈ خالی ہے۔ گیند ادھوری ہے۔ ٹیم کے بچوں کی آنکھوں میں نمی ہے۔ وہ سب پوچھتے ہیں:

“کیا ہم بھی کل غائب ہو جائیں گے؟”

29 جون 2025 کو ذیشان کی زندگی کی گھڑی روک دی گئی۔ اُسے دن دہاڑے گرمکان فٹبال چوک سے اغوا کیا گیا۔ وہ دن خاندان کے لیے قیامت سے کم نہ تھا، لیکن قیامت اگلے دن آئی جب ذیشان کی لاش ملی۔

ذیشان کے جسم پر جلنے کے نشان تھے، ناخن ادھڑے ہوئے، ہڈیاں ٹوٹی ہوئی، چہرہ ، اور سینے میں گولیاں جیسے کسی نے انصاف کے ہر سوال کو گولی مار دی ہو۔ اُسے ایسے مارا گیا جیسے وہ مجرم تھا۔ لیکن اُس کا جرم کیا تھا؟ فٹبال کھیلنا؟ بہنوں کا خیال رکھنا؟ باپ کو یاد کرنا؟ یا سچ بولنا؟

ذیشان کی ماں اُس دن پھر بے سہارا ہو گئی۔ اُس نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں کو چھوا، جو کبھی مزدوری کرتے تھے، اب وہ ٹھنڈے اور خاموش تھے۔ اُس نے ماتھے کو چوما، جہاں کبھی پسینہ ہوتا تھا، اب خون جما ہوا تھا اور وہ بس اتنا کہہ سکی: “پہلے میرا شوہر چھینا، اب میرا بیٹا بھی لے لیا… اب میں کس کے لیے زندہ رہوں؟”

ذیشان اب ہمارے درمیان نہیں، لیکن وہ ایک علامت بن چکا ہے اس قوم کی، جو صبر کے دامن میں لہو سنبھالے کھڑی ہے۔ وہ اُن خوابوں کی علامت ہے جو انصاف چاہتے ہیں اور اُن سوالوں کی علامت ہے جن کا جواب نہیں دیا جا رہا۔

ریاست نے ذیشان کو ختم کیا، لیکن اُس کے سوال کو نہیں۔ ریاست نے جسم چھینا، لیکن روح نہیں۔ ریاست نے گھر اجاڑا، لیکن جذبہ نہیں بجھا سکی۔

“یہ ذاتی نہیں، اجتماعی المیہ ہے”، “ہماری خاموشی، ان کی طاقت ہے”، “ذیشان کا خواب انصاف”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔