دکی کے معراج کول ایریا میں گزشتہ روز پیش آنے والے حادثے میں کوئلہ کان میں پھنس جانے والے چار کانکنوں میں سے ایک کی لاش برآمد کر لی گئی ہے، جانبحق کانکن کی شناخت نصب اللہ ولد محلج عرف حاجی شمس اللہ، سکنہ موسیٰ خیل کے طور پر ہوئی ہے۔
ہسپتال ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ مذکورہ کانکن حادثے کے نتیجے میں جان کی بازی ہار گیا، یاد رہے کہ اسی واقعے میں ایک اور کانکن کو زندہ حالت میں نکال لیا گیا تھا، جب کہ باقی دو کانکن تاحال لاپتہ ہیں۔
ریسکیو ٹیمیں موقع پر موجود ہیں اور باقی مزدوروں کی تلاش کا عمل جاری ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں حفاظتی اقدامات کے فقدان کے باعث اکثر جان لیوا حادثات پیش آتے رہتے ہیں جن میں اب تک سینکڑوں مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا زخمی ہو چکے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع بشمول کوئٹہ، بولان، ہرنائی، لورالائی اور دُکی، میں 256 ملین ٹن سے زائد کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق بلوچستان میں ایک لاکھ سے زائد مزدور کوئلہ کان کنی کے شعبے سے وابستہ ہیں تاہم مناسب حفاظتی انتظامات کی کمی کے باعث ہر سال متعدد کانکن مختلف حادثات کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔
یہ واقعہ بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں حفاظتی اقدامات کی کمی کی ایک اور مثال ہے سال 2024 میں بلوچستان میں 48 کوئلہ کان حادثات رپورٹ ہوئے، جن میں 82 کانکن جان بحق ہوئے۔
ان حادثات کی اکثریت دُکی، ہرنائی، مچھ اور کوئٹہ کے علاقوں میں پیش آئی ان واقعات کی بنیادی وجوہات میں مٹی کے تودے گرنا، زہریلی گیسوں کا اخراج اور حفاظتی اقدامات کی سنگین کمی شامل ہیں۔
حکومتی اداروں کی جانب سے حفاظتی اقدامات کی عدم موجودگی اور مؤثر نگرانی کے فقدان کے باعث کانکنوں کی زندگیاں مسلسل خطرے میں ہیں متعدد حادثات کے باوجود، کان مالکان یا متعلقہ حکام کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
مزدور یونینز کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال مزدوروں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اُن کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر قانونی اصلاحات، مؤثر نگرانی اور سخت حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائے تاکہ مستقبل میں ایسے المناک حادثات سے بچا جا سکے۔