خود فریب تسلیاں یا قومی مزاحمت: قومی بقا کا سوال – شاہان بلوچ

103

خود فریب تسلیاں یا قومی مزاحمت: قومی بقا کا سوال

تحریر: شاہان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

طویل خاموشی کے نتیجے میں کوئی بھی قوم مکمل طور پر نوآبادیاتی ذہنیت اپنا لیتی ہے اور اپنے وجود سے بیگانہ ہو جاتی ہے۔ ایسی سوچ جو اپنی قوم، ثقافتی یا شناخت کو کمتر اور نوآبادیاتی اقدار، زبان یا طرزِ زندگی کو برتر سمجھتی ہے ۔

نوآبادیات کسی قوم کو اس کی اپنی خصلتوں کے برعکس مزاحمتی روایت کی طرف مائل ہونے کے لیے کوئی گنجائش نہیں دیتی۔ اس تناظر میں قومی سوچ اور قومی عمل کا انتخاب ناگزیر ہو جاتا ہے، کیونکہ قومی شعور، اجتماعی جدوجہد اور یکجہتی کے ذریعے بصیرت افروز تصورات جنم لیتے ہیں اور یہی تصورات نوآبادیات کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ریاستِ پاکستان انہی تصورات کو منجمد کرنے کی کشمکش میں مبتلا ہے، لیکن اس کا طریقہ کار ہمیشہ تشدد پر مبنی رہا ہے۔ پاکستان کی نیت اُس وقت واضح ہوگئی تھی جب اس نے احمد یار خان کی دی گئی امداد کے بدلے بلوچوں کو غلام بنا دیا۔ آج بھی پاکستان اُس امداد کا عوض اس طرح دے رہا ہے کہ بلوچوں کو جبری گمشدگیوں، جعلی مقابلوں، ڈیتھ اسکواڈز، ایٹمی تجربات اور نسل کشی جیسے دیگر اقدامات کا نشانہ بنا رہا ہے گویا یہ سب احمد یار خان کی امداد کا معاوضہ ہو۔

پاکستانی ریاست بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے عمل میں مزید شدت لا رہی ہے اور انہیں خفیہ حراستی مراکز میں تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء و طالبات کو مختلف طریقوں سے نفسیاتی تشدد کا سامنا ہے۔ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء و طالبات ریاست کی جانب سے پروفائلنگ، ہراسانی اور نفسیاتی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔

حال ہی میں مختلف علاقوں اور تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے واقعات مزید تیزی سے رونما ہورہے ہیں جیسے کہ بی ایس ایف کے چیئرمین جاوید بلوچ، جامعہ کراچی کے شعبہ قانون کے فارغ التحصیل زکریا اسماعیل، شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے فارغ التحصیل زاہد بلوچ، علم و ادب پبلشر کے مینیجر چنگیز بلوچ اور شعبہ فلسفہ کے طالب علم مسلم بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ ان کی کراچی میں گمشدگی کے بعد پاکستانی انٹیلیجنس ادارے، رینجرز، پولیس، اور جامعہ کراچی کے سیکیورٹی ادارے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ ان واقعات کے بعد بالخصوص جامعہ کراچی میں بلوچ طلبہ و طالبات کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی پروفائلنگ کی جا رہی ہے۔

اس عمل کی وجہ سے طلباء شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں، کیونکہ تعلیمی ادارے وہ جگہیں ہوتی ہیں جہاں طلباء علم حاصل کرتے ہیں اور شعوری ترقی کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔ تاہم، ریاست نے ان اداروں کو ایک چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے تاکہ طلباء کے شعور کو دبایا جا سکے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جامعہ کراچی کا بوائز ہاسٹل آج بھی رینجرز کے قبضے میں ہے، اور طلباء کو رہائش کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ہاسٹل کی سہولیات کی کمی اور دیگر بنیادی ضروریات کا فقدان، ریاستی جبر کے ساتھ، بلوچ طلباء مختلف انداز میں برداشت کر رہے ہیں۔ جبر اور خوف کے ماحول کے باوجود، بلوچ طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، اس تعلیمی سفر کے دوران وہ یا تو جبری گمشدگی کا شکار ہو رہے ہیں یا پھر شدید نفسیاتی اذیت سے گزر رہے ہیں۔

ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ صرف تعلیمی مطالعے تک محدود نہ رہے بلکہ علمی و فکری مباحثوں میں بھی مشغول ہو۔ لیکن جامعہ کراچی میں طلباء ہر دن ریاستی جبر پر بات کرتے ہیں۔ کچھ طلباء اس جبر کو قبول کرچکے ہیں اور ذہنی طور پر جبری گمشدگی کے لیے تیار بیٹھے ہیں، جبکہ کچھ طلباء شعوری طور پر بے شعور بننے کی اداکاری کرتے ہیں اور خود کو اس خیال سے تسلی دیتے ہیں کہ “میں نے تو کچھ نہیں کیا، تو ریاست مجھے کیوں نشانہ بنائے گی ۔

یہ خیالات وقتی سکون کا باعث بن سکتے ہیں، لیکن جب حقیقت کا سامنا ہوتا ہے تو ایسے بہانے لرزنے لگتے ہیں۔ آخرکار، یہ دھوکے موت کی آغوش میں سر رکھ کر فنا ہو جاتے ہیں۔

بلوچ طلباء کو چاہیے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے نفسیاتی تشدد کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنائیں اور حقیقت کا بہادری سے سامنا کرنے کی ہمت پیدا کریں۔ بلوچ طلباء کب تک محض تماشائی بنے رہیں گے اور جاوید، زکریا، زاہد چنگیز اور مسلم جیسے باشعور نوجوانوں پر ہونے والے ظلم کو تماشائی بن کر دیکھتے رہیں گے؟

کچھ طلباء خود کو تسلی دینے اور مزاحمت کے راستے سے فرار پانے کے لیے سماجی بیگانگی کو اپناتے ہیں یا این جی او طرز کے پروگراموں میں خود بھی اور دوسروں کو شامل کرکے اسے بقا کی حکمت عملی یا زندہ رہنے کی مہارت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ایسے طلباء ریاست کے بیانیے کو سر ہلا کر، مسکرا کر اور پورے دل سے قبول کر لیتے ہیں، جبکہ اندر ہی اندر شک کی کیفیت میں رہ کر مباحثے کرتے ہیں اور اپنے جبری گمشدہ ساتھیوں پر الزام عائد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ جی ’انہوں نے کچھ نہ کچھ کیا ہوگا، کسی سے رابطے میں ہوں گے، یا کسی ایسے فعل میں ملوث ہوں گے جس کی وجہ سے ریاست کو انہیں جبراً گمشدہ کرنا پڑا لیکن وہ ریاست کو مکمل طور پر بری الذمہ ٹہراتے ہیں ۔

کیا جبری گمشدگی جیسا غیر آئینی اور غیر انسانی عمل ریاست کے کردار پر شک نہیں اٹھاتا؟ کیا جاوید پر جرم ثابت ہوا ہے؟ کیا زکریا پر جرم ثابت ہوا ہے؟ کیا زاہد پر جرم ثابت ہوا ہے؟ کیا مسلم پر جرم ثابت ہوا ہے؟ اگر ان پر جرم ثابت نہیں ہوا تو پھر ان طلباء کو مشکوک کیوں بنایا جا رہا ہے؟ کیوں ان کے عظیم کردار کو پسِ پردہ رکھ کر، ریاست کی سوچ اپنا کر اپنے ہی لوگوں کے ساتھ ریاست سے زیادہ بے رحم بن رہے ہیں؟

زندگی ہر کسی کے لیے عزیز ہوتی ہے، لیکن جبر اور خوف کے سایے میں جینا زندگی نہیں بلکہ موت ہے کیونکہ جب آپ اپنے جینے کے حق اور تعلیم کے حق سے اتنے دور رہ جاتے ہیں تو خود اپنی زندگی کو تکلیف دہ بنا رہے ہوتے ہیں۔ کل تعلیم کا حق اور ہاسٹل چھین لیا گیا، ناقص ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر پر راضی ہونا پڑا، اور آج اگر آپ جینے کے حق پر سمجھوتہ کرتے ہیں تو اس بات کی توقع ضرور رکھیں کہ بے حس ریاست آپ پر وہ تمام ظلم ڈھائے گی جو آپ کی پوری قوم گزشتہ ادوار سے سہہ رہی ہے ۔

زکریا کو سوشل میڈیا پر دہشتگرد کے طور پر پیش کیا گیا اور اس پر جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ اگر وہ مجرم ہے تو الزامات عدالت میں پیش کرکے ثابت کریں۔ کیا چیئرمین جاوید ، زکریا ، چنگیز ،زاہد اور مسلم پر کوئی الزام عائد کرکے کسی عدالت میں پیش کیا گیا ہے؟ کیا مجرم جبری طور پر گمشدہ ہونے والا شخص ہے کہ جس پر الزام عائد کرنے کیلئے ریاست کے پاس کوئی جواز نہیں اور نہ کہ کوئی الزام ثابت کرسکتا ہے کیونکہ الزام لگانا ہی اس ریاست کا کام رہ چکا ہے ۔ یہ ریاست خود مجرم ہے جس کا سب سے پہلا جرم بلوچ کے قومی شناخت کو سلب کرنے سے شروع ہوا جو بدستور جاری ہے ۔

بلوچ طلباء کو اپنے جینے کا حق مانگنا چاہیے، ورنہ خود کو بیوقوف بنانے کے لیے یہ بہانے بناتے رہیں کہ ‘مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ مزاحمت سے اجتناب کرنا بزدلوں کا انتخاب ہوتا ہے اور بزدلی میں بقا نہیں ۔ جبر سہنے والے جب جبر کا رخ موڑنے کی ہمت رکھتے ہیں تو وہ بقا کا ضامن بن جاتے ہیں۔ ابدیت کی زندگی قومی یکجہتی اور قومی مزاحمت میں پنہاں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔