خاموش آنکھیں، بلند آوازیں ،سائرہ بلوچ اور بلوچ بیٹیوں کی مزاحمت.
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اسلام آباد کی بارشوں میں ایک نوجوان بلوچ لڑکی سائرہ بلوچ ہاتھوں میں بینر تھامے بیٹھی ہے، اُس کے چہرے پر تھکن کے آثار ہیں لیکن آنکھوں میں چمک باقی ہے یہ چمک امید کی نہیں، بلکہ ایک ایسے عزم کی ہے جو ریاستی جبر کے خلاف دہائیوں سے پکتا آ رہا ہے، سائرہ اپنے بھائیوں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہے اُن بھائیوں کی جو جبری گمشدگی کی بھیانک روایت کا ایک اور شکار بن گئے ہیں۔
لیکن سائرہ اکیلی نہیں اُس کے ساتھ کھڑی ہیں بانُک ماہ زیب بلوچ، بانُک نادیہ بلوچ، بانُک فوزیہ شاشانی اور وہ تمام بلوچ خواتین جنہوں نے صبر، درد اور جدوجہد کو اپنی شناخت بنا لیا ہے ان کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے سوال پوچھا “ہمارے بھائی کہاں ہیں؟”
بلوچستان کی سرزمین پر آج بھی وہی زبان بولی جا رہی ہے جو برطانوی راج کے دوران قبائلی علاقوں میں بولی جاتی تھی
“اطاعت کرو، سوال نہ اٹھاؤ، اور خاموش رہو”۔ پاکستانی ریاست نے بلوچستان کو ہمیشہ ایک نوآبادیاتی نظم میں دیکھا وسائل کی جنت، مگر لوگوں کی مرضی کے بغیر، گیس ہو یا سونا، بندرگاہ ہو یا ساحل سب پر پاکستان نے حق جتایا، مگر جنہوں نے زبان کھولی، ان کو چپ کرا دیا گیا۔
ایسا طرزِ عمل صرف برطانوی سامراج نے اختیار نہیں کیا تھا، آج بھی جب بلوچ عوام اپنے آزادی یا جبری گمشدگیوں پر آواز بلند کرتے ہیں تو ان پر غداری، دہشتگردی، اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات تھوپ دیے جاتے ہیں۔ یہی طرزِ عمل سائرہ اور اُس جیسی ہزاروں بلوچ عورتوں کے خلاف بھی روا رکھا جا رہا ہے۔ جنہیں ریاست سنتی نہیں، بلکہ ہراساں کرتی ہے کبھی تھانوں کے باہر، کبھی سوشل میڈیا پر، اور کبھی “خاموشی سے سمجھانے” کے نام پر۔
ان دنوں اسلام آباد میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے مگر وہی بارش ان بلوچ لڑکیوں کے لیے نئی اذیت بن گئی ہے جو کئی دنوں سے سڑک پر دھرنا دیئے بیٹھی ہیں۔ نہ کوئی سرکاری نمائندہ آیا، نہ انسانی حقوق کمیشن نے نوٹس لیا۔ میڈیا بھی خاموش ہے گویا ان کی خبریت صرف اس وقت زندہ ہوتی ہے جب کوئی ‘پریس کانفرنس’ یا ‘اسٹیبلشمنٹ فرینڈلی’ بیانیہ ہو۔
بلوچ عورتیں جنہیں روایتی طور پر حیا، غیرت، اور پردے کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اب احتجاج کی صفِ اول میں کھڑی ہیں۔ ان کا وجود سوال ہے، ان کی موجودگی الزام ہے اُس ریاست کے لیے جو ماں ہونے کی دعوے دار ہے مگر سوتیلی ماں سے بھی بدتر ثابت ہوئی ہے.
سائرہ بلوچ اب صرف ایک بہن نہیں، بلکہ اس صدی کی وہ بیٹی ہے جو تاریخ کے صفحات پر سوال بن کر ابھری ہے۔ اس کی جدوجہد ہمیں مشرقی پاکستان کی ماں کی یاد دلاتی ہے جو اپنے بیٹے کی لاش کے انتظار میں دروازہ تکتی تھی، وہ ہمیں فلسطینی ماؤں کی یاد دلاتی ہے، جو بچوں کی تصاویر سینے سے لگا کر صہیونی کی گولیوں کا سامنا کرتی ہیں۔
آج بلوچ عورت نے پردہ چاک نہیں کیا بلکہ اُس نے ظلم کا نقاب اتارا ہے۔ آخر کب تک بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کیا جائے گا؟ کب تک مظلوم خواتین کی پکار پر ریاستی مشینری سناٹا طاری رکھے گی؟ کب تک میڈیا “قومی مفاد” کی آڑ میں سچائی سے نظریں چرائے گا؟
یہ سوالات اب صرف بلوچ خواتین کے نہیں، پاکستان کے ہر ذی شعور شہری کے سوال بن چکے ہیں۔ سائرہ، ماہ زیب، نادیہ، فوزیہ اور دیگر بلوچ خواتین نے ہمیں دکھایا ہے کہ احتجاج نہ صرف مردوں کا حق ہے، بلکہ وہ عورت جو روایتی خاموشی کی علامت سمجھی جاتی تھیں اب ریاست کی بلند دیواروں سے ٹکرا کر گونج بن چکی ہیں اور یہ گونج اب صرف بلوچستان کی نہیں، یہ پاکستان کی اجتماعی ضمیر پر دستک ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔